سرایا نبوی
سرایا عربی زبان کے لفظ سریۃ کی جمع ہے جس کے معنی فوج کی ٹکڑی کے آتے ہیں۔
سرایا نبوی جن کو محمدﷺ نے اپنے دور نبوت میں دشمنوں کی جانب روانہ کیا، لیکن بذات خود شرکت نہیں کی۔
مقالات بسلسلۂ محمد | |
---|---|
محمد | |
باب محمد | |
ادوار
اہل بیت
|
سریہ کی اصطلاحات
ترمیم- سَرِیّہ رات کے وقت جانے اورساریہ دن کے وقت نکلنے کے لیے بولا جاتا ہے۔
- اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں لشکر کا جانا پوشیدہ ہوتا ہے۔
- سریہ ایک لشکر کا حصہ ہوتا جو اس لشکر سے نکلتا ہے اور اسی میں واپس آتا ہے ان کی تعداد100 ایک سو سے 500پانچ سو تک ہوتی ہے
- 500 سے زیادہ کے لیے منسر بولا جاتا ہے
- اگر 800 سے زیادہ ہو تو اسے جیش کہتے ہیں
- 4000 سے زیادہ ہوں تو اسے جحفل کہتے ہیں
- خمیس بہت بڑے لشکر کو کہتے ہیں
- جو سریہ سے جدا ہو اسے بعث کہتے ہیں
- الکتیبہ جو جمع رہے منتشر نہ ہو[1]
اہم سرایا
ترمیم- سریہ سیف البحر: ہجرت کے پہلے سال پیش آیا، اس کے امیر حمزہ بن عبدالمطلب تھے۔
- سریہ رابغ: یہ بھی اسی سال پیش آیا، اس کے امیر عبیدہ بن حارث تھے۔
- سریہ خرار: یہ بھی اسی سال پیش آیا، اس کے امیر سعد بن ابی وقاص تھے۔
- سریہ نخلہ: یہ ہجرت کے دوسرے سال پیش آیا، جس کے قائد عبداللہ بن جحش تھے۔ حضور ﷺ نے ان کو ایک خط دے کر روانہ کیا تھا اور یہ ہدایت کی تھی کہ اس خط کو دو دن کے بعد کھولیں۔ جس میں تحریر تھا کہ طائف اور مکہ کے درمیان واقع نخلہ پہنچ کر قریش کے قافلہ کی خبرگیری کریں لیکن مدبھیڑ ہو گئی تھی۔
- سرایہ قردہ
- سریہ ابو سلمہ مخزومی
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ المواہب اللدنیہ جلد اول صفحہ 218 فرید بکسٹال لاہور