قبطی مسیحی
قِبطی مسیحی کی کلیسیا کی بنیادی جڑیں مصر میں مقیم ہیں، لیکن دنیا بھر میں قبطی مسیحی پائے جاتے ہیں۔ روایت کے مطابق، انجیل کے مُبلغ، مرقس نے پہلی صدی عیسوی میں اس کی بنیاد رکھی۔ اس وقت تقریباً 10 فی صد مصری قبطی مسیحی ہیں۔ کچھ مسیحی اندازوں کے مطابق یہ تخمینہ تقریباً 23 فی صد ہے۔ سوڈان میں بھی تقریباً 1 فی صد سوڈانی قبطی مسیحی ہیں۔ مصر اور سوڈان کے علاوہ ان کی ایک بڑی تعداد ریاست ہائے متحدہ امریکا، کینڈا اور انگلستان میں پائی جاتی ہے۔ ایک مذہبی اقلیت کے طور پر، قبطی اکثر جدید مصر میں امتیازی سلوک سے مشروط ہیں اور اسلامی عسکریت پسند و انتہا پسند گروہوں کی طرف سے حملوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔
قبطی راہب | |
کل آبادی | |
---|---|
اندازہ ہے کہ 10 تا 20 ملین[1] (مختلف تخمینہ میں تعداد محتلف ہو سکتی ہے) | |
گنجان آبادی والے علاقے | |
مصر | اندازہ 9 سے 15 ملین[3] (دیکھیں مصر میں مذہب) |
سوڈان | ca. 500,000[4] |
لیبیا | ca. 60,000[5] |
ریاستہائے متحدہ | ca. 200,000 تا 1 ملین[6][7][8][9][10] |
کینیڈا | ca. 200,000[1][11] |
آسٹریلیا | ca. 75,000 (2003)[12][13] |
اطالیہ | ca. 30,000[14] |
زبانیں | |
صرف مصر میں بولی جانے والی زبانیں: عربی (مصری عربی) عبادتی: قبطی (ناپید ہونے کے قریب ہے مگر باقی رکھنے کے لیے اس کا استعمال کیا جاتا ہے) تارکین وطن: انگریزی اور کئی دیگر | |
مذہب | |
بنیادی طور پر: قبطی قدامت پسند مسیحیت۔ اس کے علاوہ قبطی کیتھولک، پروٹسٹنٹ |
یہ مصر کی کل آبادی کی تقریباً دس سے پندرہ فی صدی ہیں۔[15][16] ساتویں صدی عیسوی میں عمر بن خطاب کے زمانہ خلافت میں مصر پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا تھا اور اس وقت آبادی کا بڑا حصہ مسلمان ہو گیا۔ کچھ لوگ مسیحیت پر قائم رہے۔ قبطی انھی کی نسل سے ہیں۔ نسلی طور پر مصر کے مسیحیوں اور مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔[17] اسلام سے پہلے ان کی زبان قبطی تھی جو اب ختم ہو چکی ہے۔ اب یہ لوگ بھی عربی بولتے اور اس میں لکھتے پڑھتے ہیں۔ یہ زیادہ تر قبطی کلیسیا کے پیرو ہیں۔[18]
عربوں کے مصر پر قبضہ سے پہلے پانچویں اور چھٹی صدی میں قبطی فنون لطیفہ نے کافی ترقی کی تھی۔ چونکہ مصر کے شمالی حصہ پر ایک زمانہ میں یونانیوں کا قبضہ تھا اور پھر یہ رومی تسلط میں آگیا اس لیے اس پر یونانی اور رومی آرٹ کا کافی اثر تھا۔ اب بھی قاہرہ، سقارہ، سوہاج وغیرہ میں قدیم گرجا گھروں کی عمارتیں باقی رہ گئی ہیں اور ان میں قدیم زمانہ کی مصوری کے نمونے اور سنگ مرمر، دھات وغیرہ کی بنی چیزیں موجود ہیں۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب "Coptic Orthodox Christmas to be low-key – Tight security: On alert after bombing in Egypt"۔ Montreal Gazette۔ 4 جنوری 2011۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2011
- ↑ "Egyptian Coptic protesters freed"۔ BBC۔ 22 دسمبر 2004۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ Official population counts put the number of Copts at around 16–18% of the population, while some Coptic voices claim figures as high as 23%۔ While some scholars defend the soundness of the official population census (cf. E.J.Chitham, The Coptic Community in Egypt. Spatial and Social Change, Durham 1986)، most scholars and international observers assume that the Christian share of Egypt's population is higher than stated by the Egyptian government. Most independent estimates fall within range between 10% and 20%،[2] for example the CIA World Factbook "Egypt"۔ The World Factbook۔ سی آئی اے۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2010 ، Khairi Abaza and Mark Nakhla (25 اکتوبر 2005)۔ "The Copts and Their Political Implications in Egypt"۔ The Washington Institute۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2010 ، Encyclopædia Britannica (1985)، or Macropædia (15th ed.، Chicago)۔ For a projected 83,000,000+ Egyptians in 2009, this assumption yields the above figures.
In 2008, Pope Shenouda III and Bishop Morkos, bishop of Shubra، declared that the number of Copts in Egypt is more than 12 million. In the same year, father Morkos Aziz the prominent priest in Cairo declared that the number of Copts (inside Egypt) exceeds 16 million. "?"۔ United Copts of Great Britain۔ 29 اکتوبر 2008۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2010 and "?"۔ العربية۔نت۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2010 Furthermore, the Washington Institute for Near East Policy Khairi Abaza and Mark Nakhla (25 اکتوبر 2005)۔ "The Copts and Their Political Implications in Egypt"۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2010 Encyclopædia Britannica (1985)، and Macropædia (15th ed.، Chicago) estimate the percentage of Copts in Egypt to be up to 20% of the Egyptian population. - ↑ Minority Rights Group International, World Directory of Minorities and Indigenous Peoples – Sudan : Copts, 2008, available at: http://www.unhcr.org/refworld/docid/49749ca6c.html [accessed 21 دسمبر 2010]
- ↑
- ↑ 2009 American Community Survey آرکائیو شدہ 2020-02-12 بذریعہ archive.today، U.S. Census Bureau "All Egyptians including Copts 197,160"
- ↑ According to published accounts and several Coptic/US sources (including the US-Coptic Association)، the Coptic Orthodox Church has between 700,000 and one million members in the United States (c. 2005–2007)۔ "Why CCU?"۔ Coptic Credit Union۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ جون 21, 2009
- ↑ "Coptics flock to welcome 'Baba' at Pittsburgh airport"۔ Pittsburgh Tribune (2007)۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ جون 21, 2009
- ↑ "State's first Coptic Orthodox church is a vessel of faith"۔ JS Online (2005)۔ 21 اگست 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ جون 21, 2009
- ↑ "Coptic Diaspora"۔ US-Copts Association (2007)۔ 20 فروری 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ جون 21, 2009
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 01 اکتوبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2015
- ↑ In the year 2003, there was an estimated 70,000 Copts in New South Wales alone: – "آرکائیو کاپی"۔ پارلیمنٹری ڈیبیٹس (ہین سرڈ)۔ Parliament of NSW – Legislative Council۔ 12 نومبر 2003۔ صفحہ: Page: 4772: – Coptic Orthodox Church (NSW) Property Trust Amendment Bill۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2015.
- ↑ "The Coptic Orthodox Diocese of Sydney & its Affiliated Regions – Under the Guidance of His Grace Bishop Daniel"۔ 23 نومبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2015
- ↑ Le religioni in Italia. La Chiesa Copta (Religions in Italy. Coptic Church)
- ↑ "Egypt's Sisi meets world Evangelical churches delegation in Cairo - Politics - Egypt - Ahram Online"۔ english.ahram.org.eg۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اکتوبر 2019
- ↑ Terence Walz (1978)۔ "Asyūṭ in the 1260's (1844-53)"۔ Journal of the American Research Center in Egypt۔ 15: 113–126۔ ISSN 0065-9991۔ doi:10.2307/40000135
- ↑ Begoña Dobon، Hisham Y. Hassan، Hafid Laayouni، Pierre Luisi، Isis Ricaño-Ponce، Alexandra Zhernakova، Cisca Wijmenga، Hanan Tahir، David Comas، Mihai G. Netea، Jaume Bertranpetit (28 May 2015)۔ "The genetics of East African populations: a Nilo-Saharan component in the African genetic landscape"۔ Scientific Reports (بزبان انگریزی)۔ 5 (1)۔ ISSN 2045-2322۔ PMC 4446898 ۔ doi:10.1038/srep09996
- ↑ Betty Jane Bailey، J. Martin Bailey (2003)۔ Who Are the Christians in the Middle East?۔ Wm. B. Eerdmans Publishing۔ صفحہ: 145۔ ISBN 978-0-8028-1020-5