نوح (اسلام)
مکمل
پیغمبر | |
---|---|
نوح | |
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | بین النہرین |
زوجہ | نعمہ |
اولاد | سام, حام, یافث اور یام |
والدین | لمک |
عملی زندگی | |
پیشہ | نبی |
دور فعالیت | 3832 ق م تا 2882 ق م |
وجہ شہرت | نوح کی کشتی |
درستی - ترمیم |
نوح |
---|
نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد یہ پہلے نبی ہیں جن کو رسالت “(جس انسان پر اللہ تعالیٰ کی وحی نازل ہوتی ہے وہ ” نبی “ ہے اور جس کو جدید شریعت بھی عطا کی گئی ہو وہ ” رسول “ ہے) سے نوازا گیا۔صحیح مسلم ” باب شفاعت “ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے ایک طویل روایت ہے اس میں یہ تصریح ہے :
( (یَا نُوْحُ اَنْتَ اَوَّلَ الرُّسِلِ اِلَی الْاَرْضِ ))[1]
” اے نوح تو زمین پر سب سے پہلا رسول بنایا گیا۔ “
آپ نے تقریباً 900 سال تک لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا مگر آپ کی قوم کا جواب یہ تھا کہ آپ بھی ہماری طرح عام آدمی ہیں اگر اللہ کسی کوبطورِ رسول بھیجتا تو وہ فرشتہ ہوتااور اس میں سے صرف 80 لوگوں نے ان کا دین قبول کیا۔ نوح علیہ السلام تمام رسولوں میں سب سے پہلے رسول تھے۔ جنہیں زمین میں مبعوث کیا گیا تھا۔[2] ان کی بیوی کا نام واہلہ تھا۔[3]
نوح علیہ اسلام نے ان کے عذاب کی بد دعا فرمائی جس کے نتیجے میں ان پر سیلاب کا عذاب نازل ہوا۔ اللہ تعالٰی نے آپ کی قوم پر عذاب بھیجا اور آپ کو ایک کشتی بنانے اور اس میں اہل ایمان کو اور ہر چرند پرند کے ایک جوڑے کو رکھنے کو کہا۔ تب طوفان کی شکل میں عذاب آیا اور سب لوگ سوائے ان کے جو نوح کی بنائی ہوئی کشتی میں سوار تھے ہلاک ہو گئے۔ [4]
نسب نامہ
علم الانساب کے ماہرین نے حضرت نوح (علیہ السلام) کا نسب نامہ اس طرح بیان کیا ہے :
نوح بن لامک بن متوشلخ بن اخنوخ یا خنوخ بن یارد بن مہلائیل بن قینن بن انوش بن شیث بن آدم ؑ۔
اگرچہ مورخین اور تورات (کتاب پیدائش) نے اسی کو صحیح مانا ہے۔نوح بن لمک بن متوسلح بن حنوک بن یارد بن محلل ایل بن قینان بن انوس بن سیت بن آدم (علیہ السلام)[5] لیکن ہم کو اس کی صحت میں شک اور تردد ہے ‘ بلکہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیان ان بیان کردہ سلسلوں سے زیادہ سلسلے ہیں ‘ تورات میں خلق آدم (علیہ السلام) اور ولادت حضرت نوح (علیہ السلام) نیز وفات آدم (علیہ السلام) اور ولادت نوح (علیہ السلام) کی درمیانی مدت کا جو تذکرہ ہے۔ہم اس کو بھی نقل کردینا مناسب سمجھتے ہیں ‘ البتہ یہ بات پیش نظر رہے کہ تورات کے عبرانی ‘سامی اور یونانی زبان کے نسخوں میں بہت زیادہ اختلاف ہے اور اس مبحث پر علامہ شیخ رحمت اللہ ہندی (کیرانہ ضلع مظفر نگر) کی مشہور کتاب ” اظہار حق “ قابل مطالعہ ہے ‘ بہرحال تورات سے منقول نقشہ حسب ذیل ہے :
نقشہ۔۔۔ ١
سال عمر بوقت ولادت پسر
١٣٠
آدم (علیہ السلام)
بوقت ولادت شیث ؑ
١٥٠
شیث
بوقت ولادت انوش
٩٠
انوش
بوقت ولادت قینن
٧٠
قینن
بوقت ولادت مہلائیل
٦٥
مہلائیل
بوقت ولادت یارد
١٦٢
یارد
بوقت ولادت اخنوخ
٦٥
اخنوخ
بوقت ولادت متوشلخ
١٨٧
متوشلخ
بوقت ولادت لامک
١٨٢
لامک
بوقت ولادت نوح ؑ
نقشہ۔۔ ٢
مدت درمیان خلق آدم (علیہ السلام) و ولادت نوح ؑ
١٠٥٦ سال
عمر آدم ؑ
٩٣٠ سال
مدت درمیان وفات آدم (علیہ السلام) و ولادت نوح ؑ
١٠٢٦ سال
آپ اگر ان دونوں نقشوں کے درمیان حسابی مطابقت کرنا چاہیں تو کامیاب نہ ہو سکیں گے اس لیے کہ سطور بالا سے یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ یہ سب تخمین و ظن پر مبنی ہے اور اسی وجہ سے اس مسئلہ میں تورات کے مختلف نسخوں میں بھی کافی اختلاف و انتشار پایا جاتا ہے۔
قرآن عزیز میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا تذکرہ
قرآن عزیز کے معجز نما نظم کلام کی یہ سنت ہے کہ وہ تاریخی واقعات میں سے جب کسی واقعہ کو بیان کرتا ہے تو اپنے مقصد ” وعظ و تذکیر “ کے پیش نظر واقعہ کی انھی جزئیات کو نقل کرتا ہے۔جو مقصد کے لیے ضروری ہیں اور اجمال و تفصیل اور تکرار واقعہ میں بھی صرف ایک ہی مقصد اس کے سامنے ہوتا ہے اور وہ یہی ” موعظت و عبرت “ کا مقصد ہے ‘چنانچہ اسی اسلوب بیان کے مطابق قرآن عزیز نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ کا اجمالی و تفصیلی ذکر تینتالیس جگہ کیا ہے جس کا ثبوت مسطورہ ذیل جدول سے ہوتا ہے :
سورة
آیت
سورة
آیت
آیت
آل عمران
34
مریم
58
مومن
5۔ 31
النساء
163
الانبیاء
76
الشوریٰ
13
انعام
84
الحج
43
ق
12
اعراف
59۔ 69
المومنون
23
الذاریات
46
التوبہ
70
الفرقان
37
النجم
52
یونس
71
الشعراء
105۔ 106۔ 116
القمر
9
ھود
25۔ 32۔ 36۔ 42
45۔ 46۔ 47۔ 89
العنکبوت
14
الحدید
26
الاحزاب
7
التحریم
10
ابراہیم
9
الصافات
75۔ 79
نوح
1۔ 21۔ 26
الاسراء
3۔ 17
صٓ
12
لیکن اس واقعہ کی اہم تفصیلات صرف سورة اعراف ‘ ہود ‘ مومنون ‘ شعرا ‘ قمر اور سورة نوح ہی میں بیان ہوئی ہیں ‘ ان سے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے متعلق جس قسم کی تاریخ بنتی ہے وہی ہمارا موضوع بیان ہے۔
قوم نوح ؑ
حضرت نوح (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے تمام قوم خدا کی توحید اور صحیح مذہبی روشنی سے یکسر نا آشنا ہو چکی تھی اور حقیقی خدا کی جگہ خود ساختہ بتوں نے لے لی تھی ‘ غیر اللہ کی پرستش اور اصنام پرستی ان کا شعار تھا۔
دعوت و تبلیغ اور قوم کی نافرمانی
آخر سنت اللہ کے مطابق ان کے رشد و ہدایت کے لیے بھی انھی میں سے ایک ہادی اور خدا کے سچے رسول نوح (علیہ السلام) کو مبعوث کیا گیا۔حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو راہ حق کی طرف پکارا اور سچے مذہب کی دعوت دی ‘ لیکن قوم نے نہ مانا اور نفرت و حقارت کے ساتھ انکار پر اصرار کیا ‘امرا و رؤسائے قوم نے ان کی تکذیب و تحقیر کا کوئی پہلو نہ چھوڑا اور ان کے پیروؤں نے انھی کی تقلید و پیروی کے ثبوت میں ہر قسم کی تذلیل و توہین کے طریقوں کو حضرت نوح (علیہ السلام) پر آزمایا ‘انھوں نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا جس کو نہ ہم پر دولت و ثروت میں برتری حاصل ہے اور نہ وہ انسانیت کے رتبہ سے بلند ” فرشتہ ہیکل “ ہے ‘ اس کو کیا حق ہے کہ وہ ہمارا پیشوا بنے ‘ اور ہم اس کے احکام کی تعمیل کریں ؟
وہ غریب اور کمزور افراد قوم کو جب حضرت نوح (علیہ السلام) کا تابع اور پیرو دیکھتے تو مغرورانہ انداز میں حقارت سے کہتے ” ہم ان کی طرح نہیں ہیں کہ تیرے تابع فرمان بن جائیں اور تجھ کو اپنا مقتدا مان لیں “ وہ سمجھتے تھے کہ یہ کمزور اور پست لوگ نوح (علیہ السلام) کے اندھے مقلد ہیں ‘نہ یہ ذی رائے ہیں کہ ہماری طرح اپنی جانچی پرکھی رائے سے کام لیتے اور نہ ذی شعور ہیں کہ حقیقت حال کو سمجھ لیتے ‘اور اگر وہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بات کی طرف کبھی توجہ دیتے تو ان سے اصرار کرتے کہ پہلے ان پست اور غریب افراد قوم کو اپنے پاس سے نکال دے۔تب ہم تیری بات سنیں گے کیونکہ ہم کو ان سے گھن آتی ہے اور ہم اور یہ ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتے۔
حضرت نوح (علیہ السلام) اس کا ایک ہی جواب دیتے کہ ایسا کبھی نہ ہوگا کیونکہ یہ اللہ کے مخلص بندے ہیں۔ اگر میں ان کے ساتھ ایسا معاملہ کروں جس کے تم خواہش مند ہو تو خدا کے عذاب سے میرے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہے ‘ میں اس کے دردناک عذاب سے ڈرتا ہوں ‘اس کے یہاں اخلاص کی قدر ہے ‘ امیر و غریب کا وہاں کوئی سوال نہیں ہے نیز ارشاد فرماتے کہ میں تمھارے پاس اللہ کی ہدایت کا پیغام لے کر آیا ہوں نہ میں نے غیب دانی کا دعویٰ کیا ہے اور نہ فرشتہ ہونے کا ‘میں خدا کا برگزیدہ پیغمبر اور رسول ہوں اور دعوت و ارشاد میرا مقصد و نصب العین ہے ‘ اس کو سرمایہ دارانہ بلندی ‘ غیب دانی یا فرشتہ ہیکل ہونے سے کیا واسطہ ؟ یہ کمزور و نادار افرادِ قوم جو خدا پر سچے دل سے ایمان لائے ہیں۔تمھاری نگاہ میں اس لیے حقیر و ذلیل ہیں کہ وہ تمھاری طرح صاحب دولت و مال نہیں ہیں اور اسی لیے تمھارے خیال میں یہ نہ خیر حاصل کرسکتے ہیں اور نہ سعادت کیونکہ یہ دونوں چیزیں دولت و حشمت کے ساتھ ہیں نہ کہ نکبت و افلاس کے ساتھ۔
سو واضح رہے کہ خدا کی سعادت و خیر کا قانون ظاہری دولت و حشمت کے تابع نہیں ہے اور نہ اس کے یہاں سعادت و ہدایت کا حصول و ادراک سرمایہ کی رونق کے زیر اثر ہے بلکہ اس کے برعکس طمانیت نفس ‘ رضائے الٰہی ‘ غنائے قلب اور اخلاص نیت و عمل پر موقوف ہے۔
حضرت نوح (علیہ السلام) نے یہ بھی بارہا تنبیہ کی کہ مجھ کو اپنی اس ابلاغ دعوت و ارسال ہدایت میں نہ تمھارے مال کی خواہش ہے نہ جاہ و منصب کی ‘ میں اجرت کا طلب گار نہیں ہوں ‘ اس خدمت کا حقیقی اجر وثواب تو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ‘ اور وہی بہترین قدر دان ہے غرض ” سورة ہود “ حق و تبلیغ کے ان تمام مکالموں ‘ مناظروں اور پیغامات حق کے انھی ارشادات عالیہ کا ایک غیر فانی ذخیرہ ہے۔
{ فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَا نَرٰکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَ مَا نَرٰکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیْنَ ھُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِج وَ مَا نَرٰی لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّکُمْ کٰذِبِیْنَ ۔ قَالَ یٰقَوْمِ اَرَئَیْتُمْ اِنْ کُنْتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ اٰتـٰنِیْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِہٖ فَعُمِّیَتْ عَلَیْکُمْط اَنُلْزِمُکُمُوْھَا وَ اَنْتُمْ لَھَا کٰرِھُوْنَ ۔ وَ یٰقَوْمِ لَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مَالًاط اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ وَ مَآ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّھِمْ وَ لٰکِنِّیْٓ اَرٰکُمْ قَوْمًا تَجْھَلُوْنَ ۔ وَ یٰقَوْمِ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰہِ اِنْ طَرَدْتُّھُمْط اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ ۔ وَ لَا اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَا اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَآ اَقُوْلُ اِنِّیْ مَلَکٌ وَّ لَآ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْدَرِیْٓ اَعْیُنُکُمْ لَنْ یُّؤْتِیَھُمُ اللّٰہُ خَیْرًاط اَللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ اِنِّیْٓ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ } [6]
” اس پر قوم کے ان سرداروں نے جنھوں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی کہا ” ہم تو تم میں اس کے سوا کوئی بات نہیں دیکھتے کہ ہماری ہی طرح کے ایک آدمی ہو اور جو لوگ تمھارے پیچھے چلے ہیں ان میں بھی ان لوگوں کے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا جو ہم میں ذلیل و حقیر ہیں اور بے سوچے سمجھے تمھارے پیچھے ہو لیے ہیں۔ہم تو تم لوگوں میں اپنے سے کوئی برتری نہیں پاتے ‘ بلکہ سمجھتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو “ نوح نے کہا ” اے میری قوم کے لوگو ! تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل روشن پر ہوں ‘اور اس نے اپنے حضور سے ایک رحمت بھی مجھے بخش دی ہو (یعنی راہ حق دکھادی ہو) مگر وہ تمھیں دکھائی نہ دے (تو میں اس کے سوا کیا کرسکتا ہوں جو کر رہا ہوں ؟ ) کیا ہم جبراً تمھیں راہ دکھادیں ‘حالانکہ تم اس سے بیزار ہو ‘ لوگو ! یہ جو کچھ میں کر رہا ہوں تو اس پر مال و دولت کا تم سے طالب نہیں ‘ میری خدمت کی مزدوری جو کچھ ہے ‘ صرف اللہ پر ہے ‘ اور یہ بھی سمجھ لو کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں (وہ تمھاری نظروں میں کتنے ہی ذلیل ہوں مگر) میں ایسا کرنے والا نہیں کہ اپنے پاس سے انھیں ہنکا دوں انھیں بھی اپنے پروردگار سے (ایک دن) ملنا ہے (اور وہ ہم سب کے اعمال کا حساب لینے والا ہے) لیکن (میں تمھیں سمجھاؤں تو کس طرح سمجھاؤں)میں دیکھتا ہوں کہ تم ایک جماعت ہو (حقیقت سے) جاہل ‘ اے میری قوم کے لوگو ! مجھے بتاؤ ‘ اگر میں ان لوگوں کو اپنے پاس سے نکال باہر کروں (اور اللہ کی طرف سے مواخذہ ہو جس کے نزدیک معیار قبولیت ایمان و عمل ہے ‘نہ تمھاری گھڑی ہوئی شرافت و رذالت) تو اللہ کے مقابلہ میں کون ہے جو میری مدد کرے گا ؟ (افسوس تم پر ! ) کیا تم غور نہیں کرتے ؟ اور دیکھو ‘ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ‘نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں ‘ نہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ میں فرشتہ ہوں ‘ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ جن لوگوں کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو ‘اللہ انھیں بھلائی نہیں دے گا ( جیسا کہ تمھارا اعتقاد ہے) اللہ ہی بہتر جانتا ہے جو کچھ ان لوگوں کے دلوں میں ہے اگر میں تمھاری خواہش کے مطابق ایسا کہوں ‘ تو جونہی ایسی بات کہی ‘ میں ظالموں میں سے ہو گیا ! “
بہرحال حضرت نوح (علیہ السلام) نے انتہائی کوشش کی کہ بدبخت قوم سمجھ جائے اور اللہ کی رحمت کی آغوش میں آجائے مگر قوم نے نہ مانا اور جس قدر اس جانب سے تبلیغ حق میں جدوجہد ہوئی اسی قدر قوم کی جانب سے بغض وعناد میں سرگرمی کا اظہار ہوا ‘ اور ایذاء رسانی اور تکلیف دہی کے تمام وسائل کا استعمال کیا گیا اور ان کے بڑوں نے عوام سے صاف صاف کہہ دیا کہ تم کسی طرح وَد ‘ سُوَاع ‘ یَغُوْث ‘ یَعُوْق ‘ اور نَسْر جیسے بتوں کی پرستش کو نہ چھوڑو۔
یہی وہ مباحث ہیں جن کو سورة نوح میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور جو بلاشبہ ہدایت و ضلالت کے مہم مسائل کو آشکارا کرتے ہیں :
{ اِنَّآ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖٓ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۔ قَالَ یٰـقَوْمِ اِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ۔ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِیْ ۔ یَغْفِرْ لَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَیُؤَخِّرْکُمْ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّیط اِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ اِذَا جَائَ لَا یُؤَخَّرُم لَوْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّنَہَارًا ۔ فَلَمْ یَزِدْہُمْ دُعَائِیْ اِلَّا فِرَارًا ۔ وَاِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُہُمْ لِتَغْفِرَ لَہُمْ جَعَلُوْا اَصَابِعَہُمْ فِیْ اٰذَانِہِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَہُمْ وَاَصَرُّوْا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارًا ۔ ثُمَّ اِنِّیْ دَعَوْتُہُمْ جِہَارًا ۔ ثُمَّ اِنِّیْٓ اَعْلَنْتُ لَہُمْ وَاَسْرَرْتُ لَہُمْ اِسْرَارًا ۔ فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْط اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا۔ } [7]
” ہم نے بھیجا نوح کو اس کی قوم کی طرف کہ ڈرا اپنی قوم کو اس سے پہلے کہ پہنچے ان پر عذاب دردناک ‘ بولا اے قوم میری ! میں تم کو ڈر سناتا ہوں کھول کر کہ بندگی کرو اللہ کی اور اس سے ڈرو اور میرا کہا مانو تاکہ بخشے وہ تم کو کچھ گناہ تمھارے اور ڈھیل دے تم کو ایک مقررہ وعدہ تک ‘ وہ جو وعدہ کیا ہے اللہ نے ‘جب آپہنچے گا اس کو ڈھیل نہ ہوگی ‘ اگر تم کو سمجھ ہے ‘ بولا اے رب میں بلاتا رہا اپنی قوم کو رات اور دن ‘ پھر میرے بلانے سے اور زیادہ بھاگنے لگے ‘ اور میں نے جب کبھی ان کو بلایا تاکہ تو ان کو بخشے ‘ ڈالنے لگے انگلیاں اپنے کانوں میں اور لپیٹنے لگے اپنے اوپر کپڑے ‘ اور ضد کی اور غرور کیا بڑا غرور ‘ پھر میں نے ان کو بلایا برملا ‘ پھر میں نے ان کو کھول کر کہا اور چھپ کر کہا چپکے سے تو میں نے کہا گناہ بخشواؤ اپنے رب سے ‘ بیشک وہ ہے بخشنے والا۔ “
{ وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَکُمْ وَلاَ تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًالا وَّ لَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا } [8]
” اور انھوں نے (اپنے عوام سے) کہا ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑو اور ود ‘ سواع ‘ یغوث ‘ یعوق اور نسر کو نہ چھوڑو۔ “
اور آخر میں زچ ہو کر کہنے لگے ” اے نوح اب ہم سے جنگ و جدل نہ کر اور ہمارے اس انکار پر اپنے اللہ کا جو عذاب لاسکتا ہے لے آ۔ “
{ قَالُوْا یٰنُوْحُ قَدْ جٰدَلْتَنَا فَاَکْثَرْتَ جِدَالَنَا فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ } [9]
” وہ کہنے لگے ” اے نوح ! تو نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت جھگڑا کیا اب اس کو ختم کر اور جو تو نے ہم سے (عذاب الٰہی کا) وعدہ کیا ہے وہ لے آ اگر تم سچے ہو۔ “
حضرت نوح (علیہ السلام) نے یہ سن کر ان کو جواب دیا کہ عذاب الٰہی میرے قبضہ میں نہیں ہے وہ تو اس کے قبضہ میں ہے جس نے مجھ کو رسول بنا کر بھیجا ہے ‘ وہ چاہے گا تو یہ سب کچھ بھی ہوجائے گا۔
{ قَالَ اِنَّمَا یَاْتِیْکُمْ بِہِ اللّٰہُ اِنْ شَآئَ وَ مَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ } [10]
” نوح نے کہا ضرور اگر اللہ چاہے گا تو اس عذاب کو بھی لے آئے گا اور تم اس کو تھکا دینے والے نہیں ہو۔ “
بہرحال جب قوم کی ہدایت سے حضرت نوح (علیہ السلام) بالکل مایوس ہو گئے اور اس کی باطل کوشی اور عناد و ہٹ دھرمی ان پر واضح ہو گئی اور قرآنی تصریح کے مطابق ساڑھے نو سو سال کی پیہم دعوت و تبلیغ کا ان پر کوئی اثر نہ دیکھا تو سخت ملول اور پریشان خاطر ہوئے تب اللہ تعالیٰ نے ان کی تسلی کے لیے فرمایا :
{ وَ اُوْحِیَ اِلٰی نُوْحٍ اَنَّہٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِکَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ } [11]
” اور نوح پر وحی کی گئی کہ جو ایمان لے آئے وہ لے آئے اب ان میں سے کوئی ایمان لانے والا نہیں ہے پس ان کی حرکات پر غم نہ کر۔ “
جب حضرت نوح (علیہ السلام) کو یہ معلوم ہو گیا کہ ان کے ابلاغ حق میں کوتاہی نہیں ہے بلکہ خود نہ ماننے والوں کی استعداد کا قصور ہے ‘ اور ان کی اپنی سرکشی کا نتیجہ ‘ تب ان کے اعمال اور کمینہ حرکات سے متاثر ہو کر اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں یہ دعا فرمائی :
{ وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا ۔ اِنَّکَ اِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْآ اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا ۔ } [12]
” اے پروردگار تو کافروں میں سے کسی کو بھی زمین پر باقی نہ چھوڑ ‘ اگر تو ان کو یونہی چھوڑ دے گا تو یہ تیرے بندوں کو بھی گمراہ کریں گے اور ان کی نسل بھی انہی کی طرح نافرمان پیدا ہوگی۔ “
بنائے سفینہ
اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمائی ‘ اور اپنے قانون جزاء اعمال کے مطابق سرکشوں کی سرکشی اور متمردوں کے تمرد کی سزا کا اعلان کر دیا ‘ اور حفظ ما تقدم کے لیے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ہدایت فرمائی کہ وہ ایک کشتی تیار کریں ‘تاکہ اسباب ظاہری کے اعتبار سے وہ اور مومنین قانتین اس عذاب سے محفوظ رہیں جو اللہ کے نافرمانوں پر نازل ہونے والا ہے۔حضرت نوح (علیہ السلام) نے جب حکم رب سے کشتی بنانی شروع کی تو کفار نے ہنسی اڑانا اور مذاق بنانا شروع کر دیا اور جب کبھی ان کا ادھر سے گذر ہوتا تو کہتے کہ خوب !جب ہم غرق ہونے لگیں گے تب تو اور تیرے پیرو اس کشتی میں محفوظ رہ کر نجات پاجائیں گے ‘ کیسا احمقانہ خیال ہے ‘حضرت نوح (علیہ السلام) بھی ان کو انجام کار سے غفلت اور خدا کی نافرمانی پر جرأت دیکھ کر انھی کے طرز پر جواب دیتے اور اپنے کام میں مشغول رہتے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی ان کو حقیقت حال سے آگاہ کر دیا تھا :
{ وَ اصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا وَ لَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاج اِنَّھُمْ مُّغْرَقُوْنَ } [13]
” اے نوح تو ہماری حفاظت میں ہماری وحی کے مطابق سفینہ تیار کیے جا اور اب مجھ سے ان کے متعلق کچھ نہ کہو۔ یہ بلاشبہ غرق ہونے والے ہیں۔ “
آخر سفینہ نوح ؑ بن کر تیار ہو گیا۔ اب خدا کے وعدہ عذاب کا وقت قریب آیا اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے اس پہلی علامت کو دیکھا جس کا ذکر ان سے کیا گیا تھا ‘یعنی زمین کی تہ میں سے پانی کا چشمہ ابلنا شروع ہو گیا۔تب وحی الٰہی نے ان کو حکم سنایا کہ کشتی میں اپنے خاندان کو بیٹھنے کا حکم دو اور تمام جانداروں میں سے ہر ایک کا ایک جوڑا بھی کشتی میں پناہ گیر ہو ‘اور وہ مختصر جماعت (تقریباً چالیس نفر) بھی جو تجھ پر ایمان لا چکی ہے کشتی میں سوار ہوجائے۔
جب وحی الٰہی کی تعمیل پوری ہو گئی تو اب آسمان کو حکم ہوا کہ پانی برسنا شروع ہو ‘اور زمین کے چشموں کو امر کیا گیا کہ وہ پوری طرح ابل پڑیں۔ خدا کے حکم سے جب یہ سب کچھ ہوتا رہا تو کشتی بھی اس کی حفاظت میں پانی پر ایک مدت تک محفوظ تیرتی رہی تا آنکہ تمام منکرین و معاندین غرق آب ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے قانون ” جزائے اعمال “ کے مطابق اپنے کیفر کردار کو پہنچ گئے۔
پسر نوح ؑ
اس مقام پر ایک مسئلہ خاص طور پر قابل توجہ ہے ‘ وہ یہ کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے طوفانی عذاب کے وقت خدائے تعالیٰ سے اپنے بیٹے کی نجات کے متعلق سفارش کی اور خدائے تعالیٰ نے ان کو اس سفارش سے روک دیا ‘ اس مسئلہ کی اہمیت قرآن عزیز کی حسب ذیل آیات سے پیدا ہوتی ہے :
{ وَ نَادٰی نُوْحٌ رَّبَّہٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَھْلِیْ وَ اِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَ اَنْتَ اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ۔ قَالَ یٰنُوْحُ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَج اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍز فَلَا تَسْئَلْنِ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌط اِنِّیْٓ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ ۔ قَالَ رَبِّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْئَلَکَ مَا لَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌط وَ اِلَّا تَغْفِرْلِیْ وَ تَرْحَمْنِیْٓ اَکُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ ۔ قِیْلَ یٰنُوْحُ اھْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَ بَرَکٰتٍ عَلَیْکَ وَ عَلٰٓی اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَکَ } [14]
” اور نوح نے اپنے رب کو پکارا اور کہا اے پروردگار میرا بیٹا میرے اہل ہی میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو بہترین حاکموں میں سے ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے کہا اے نوح ! یہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے ‘ یہ بدکردار ہے ‘پس تجھ کو ایسا سوال نہ کرنا چاہیے جس کے بارے میں تجھ کو علم نہ ہو ‘ میں بلاشبہ تجھ کو نصیحت کرتا ہوں کہ تو نادانوں میں سے نہ بن ‘ نوح نے کہا اے رب میں بلا تردد اس بارے میں جس کے متعلق مجھے علم نہ ہو تجھ سے سوال کروں ‘تیری پناہ چاہتا ہوں اور اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ کیا تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گا۔ نوح سے کہہ دیا گیا اے نوح ! ہماری جانب سے تو اور تیرے ہمراہی ہماری سلامتی اور برکتوں کے ساتھ زمین پر اترو۔ “
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے اللہ کا وعدہ تھا کہ ان کے اہل کو نجات دے گا ‘ اس لیے حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے (کنعان) کے لیے دعا مانگی جس پر رب العالمین کی جانب سے عتاب ہوا کہ تم کو جس شے کا علم نہ ہو اس کے متعلق اس طرز سے سوال کرنے کا حق نہیں ہے اس پر حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور خدائے تعالیٰ سے مغفرت و رحمت طلب کی اور اس کی جانب سے بھی خواہش کے مطابق جواب ملا۔
تو اب غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا سوال کس وعدہ پر مبنی تھا ‘ اور آیا وہ وعدہ پورا ہوا یا نہیں اور حضرت نوح (علیہ السلام) کو اس وعدہ کے سمجھنے میں کسی قسم کی غلط فہمی ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی تنبیہ پر انھوں نے کس طرح اصل حقیقت کو سمجھ لیا ؟
اس سوال کے جواب میں حسب ذیل آیت قابل توجہ ہے :
{ حَتّٰیٓ اِذَا جَآئَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُلا قُلْنَا احْمِلْ فِیْھَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَ اَھْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ وَ مَنْ اٰمَنَط وَ مَآ اٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلٌ} [15]
” تا آنکہ جب ہمارا حکم (عذاب) آپہنچا اور تنور سے پانی ابل پڑا تو ہم نے (نوح سے) کہا کہ ” ہر جاندار میں سے ایک ایک جوڑا کشتی میں بٹھا لو اور اس کے علاوہ جس پر خدا کا فرمان ناطق ہو چکا ہے ‘ اپنے اہل کو بھی اور جو تجھ پر ایمان لائے ہیں ان کو بھی اور وہ بہت تھوڑے ہیں۔ “
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے حق تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ تم اپنی اس کشتی میں جو اہل نجات کے لیے تیار کی گئی ہے اپنے اہل کو بٹھالو لیکن تمھارا پورا کنبہ نجات یافتہ نہیں ہے بلکہ بعض ایسے بھی ہیں جن پر خدا کے عذاب کا فیصلہ ہو چکا ہے :
اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ چونکہ حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی بیوی کے سابقہ کافرانہ عقائد و اعمال کی بنا پر اس بات سے مایوس ہو چکے تھے کہ وہ خدائے برحق پر ایمان لائے اور توحید کی آواز پر لبیک کہے !
اس لیے اس استثناء کا مصداق صرف اسی کو سمجھے اور بیٹے کی محبت میں یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ نو عمر ہے شاید کشتی میں مومنین کی صحبت سے فائدہ اٹھا کر ایمان لے آئے اور کافروں کی مجالس کے اثرات کو محو کر دے ‘خدائے تعالیٰ کے ارشاد وَاَھْلَکَ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے درگاہ الٰہی میں کنعان کی نجات کی دعا کی ‘ مگر اللہ تعالیٰ کو اپنے جلیل القدر پیغمبر کا یہ ” قیاس “ پسند نہ آیا اور ان کو تنبیہ کی کہ جو ہستی خدا کی ” وحی “ سے ہر وقت مستفیض ہوتی رہتی ہو اس کو جذبہ محبت پدری میں اس قدر سرشار نہ ہوجانا چاہیے کہ ” وحی الٰہی “کا انتظار کیے بغیر خود ہی قیاس آرائی کر کے انجام تک کا فیصلہ کر بیٹھے ؟ حالانکہ وعدہ نجات صرف مومنین کے لیے مخصوص ہے اور کنعان کافروں کے ساتھ کافر ہی رہے گا ‘ بلاشبہ تمھارا اس قسم کا سوال منصب رسالت و نبوت کے شایان شان نہیں ہے۔گویا حضرت نوح (علیہ السلام) سے خدائے تعالیٰ کا یہ خطاب دراصل عتاب نہیں تھا بلکہ مشاہدہ حقیقت کے لیے ایک پکار تھی جس کو انھوں نے سنا اور اپنی بشریت و عبدیت کے اعتراف کے ساتھ ساتھ مغفرت کے طالب ہوئے اور خدا کی سلامتی اور برکت حاصل کر کے شادکام و بامراد بنے ‘پس یہ سوال نہ معصیت کا سوال تھا اور نہ عصمت انبیا کے منافی ‘ اس لیے خطاب الٰہی نے اس کو ” نادانی “ سے تعبیر کیا نہ کہ گناہ اور نافرمانی سے۔
بہرحال حضرت نوح (علیہ السلام) کے سامنے یہ حقیقت آشکارا ہو گئی کہ وعدہ نجات کا منشا نسل و خاندان نہیں ہے بلکہ ” ایمان باللّٰہ “ ہے ‘ اس لیے انھوں نے اپنا رخ بدل کر کنعان کو مخاطب کیا اور اپنا منصب دعوت ادا کرتے ہوئے چاہا کہ وہ بھی ” مومن “ بن کر نجات الٰہی سے بہرہ ور ہو ‘ مگر اس بدبخت نے جواب دیا :
{ قَالَ سَاٰوِیْٓ اِلٰی جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَآئِ } [16]
” کہا : میں بہت جلد کسی پہاڑ کی پناہ لیتا ہوں کہ وہ مجھ کو غرقابی سے بچا لے گا۔ “
حضرت نوح (علیہ السلام) نے یہ سن کر فرمایا :
{ قَالَ لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَج وَ حَالَ بَیْنَھُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ } [17]
” آج کوئی خدا کے حکم سے بچانے والا نہیں ہے صرف وہی بچے گا جس پر خدا کا رحم ہوجائے ‘ اس درمیان میں ان دونوں کے درمیان موج حائل ہو گئی اور وہ غرق ہونے والوں میں سے ہو گیا۔ “
کوہ جودی
غرض جب حکم الٰہی سے عذاب ختم ہوا تو سفینہ نوح ” جودی “ پر جا کر ٹھہر گیا۔
{ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ وَ اسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَ قِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ } [18]
” اور حکم پورا ہوا اور کشتی جودی پر جا ٹھہری اور اعلان کر دیا گیا کہ قوم ظالمین کے لیے ہلاکت ہے۔ “
توراۃ میں جودی کو اراراط کے پہاڑوں میں سے بتایا گیا ہے ‘ اراراط درحقیقت جزیرہ کا نام ہے یعنی اس علاقہ کا نام جو فرات و دجلہ کے درمیان دیار بکر سے بغداد تک مسلسل چلا گیا ہے۔
پانی آہستہ آہستہ خشک ہونا شروع ہو گیا اور ساکنان کشتی نے دوسری بار امن و سلامتی کے ساتھ خدا کی سرزمین پر قدم رکھا ‘ اسی بنا پر حضرت نوح (علیہ السلام) کا لقب ” ابو البشر ثانی “ یا ” آدم ثانی “ (یعنی انسانوں کا دوسرا باپ) مشہور ہوا ‘ اور غالباً اسی اعتبار سے حدیث میں ان کو ” اول الرسل “ کہا گیا۔اگرچہ یہاں پہنچ کر واقعہ کی تفصیلات ختم ہوجاتی ہیں تاہم اس اہم واقعہ میں جو علمی اور تاریخی سوالات پیدا ہوتے ہیں یا پیدا کیے گئے ہیں وہ بھی قابل ذکر و مذاکرہ ہیں جو ترتیب وار درج ذیل ہیں :
کیا طوفان نوح تمام کرہ ارضی پر آیا تھا یا کسی خاص خطہ پر ؟
اس کے متعلق علمائے قدیم و جدید میں ہمیشہ سے دو رائے رہی ہیں ‘ علمائے اسلام میں سے ایک جماعت ‘علمائے یہود و نصاریٰ ‘ اور بعض ماہرین علوم فلکیات ‘ طبقات الارض ‘ اور تاریخ طبیعیات کی یہ رائے ہے کہ یہ طوفان تمام کرہ ارضی پر نہیں آیا تھا۔بلکہ صرف اسی خطہ میں محدود تھا جہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم آباد تھی اور یہ علاقہ مساحت کے اعتبار سے ایک لاکھ چالیس ہزار مربع کلومیٹر ہوتا ہے۔
ان کے نزدیک طوفان نوح کے خاص ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ طوفان عام تھا تو اس کے آثار کرہ ارضی کے مختلف گوشوں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر ملنے چاہیے تھے ‘حالانکہ ایسا نہیں ہے ‘ نیز اس زمانہ میں انسانی آبادی بہت ہی محدود تھی اور وہی خطہ تھا جہاں حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم آباد تھی ‘ابھی حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد کا سلسلہ اس سے زیادہ وسیع نہ ہوا تھا جو اس علاقہ میں آباد تھا ‘لہٰذا وہی مستحق عذاب تھے اور انھی پر طوفان کا یہ عذاب بھیجا گیا ‘ باقی کرہ زمین کو اس سے کوئی علاقہ نہ تھا۔
اور بعض علمائے اسلام اور ماہرین طبقات الارض اور علمائے طبیعیات کے نزدیک یہ طوفان تمام کرہ ارضی پر حاوی تھا اور ایک یہی نہیں بلکہ ان کے خیال میں اس زمین پر متعدد ایسے طوفان آئے ہیں ‘انھی میں سے ایک یہ بھی تھا اور وہ پہلی رائے کے تسلیم کرنے والوں کو ” آثار “سے متعلق سوال کا یہ جواب دیتے ہیں کہ ” جزیرہ “ یا عراق عرب کی اس سرزمین کے علاوہ بلند پہاڑوں پر بھی ایسے حیوانات کے ڈھانچے اور ہڈیاں بکثرت پائی گئی ہیں۔جن کے متعلق ماہرین علم طبقات الارض کی یہ رائے ہے کہ یہ حیوانات مائی ہی ہیں اور صرف پانی ہی میں زندہ رہ سکتے ہیں ‘پانی سے باہر ایک لمحہ بھی ان کی زندگی دشوار ہے ‘ اس لیے کرہ ارض کے مختلف پہاڑوں کی بلند چوٹیوں پر ان کا ثبوت اس کی دلیل ہے کہ کسی زمانہ میں پانی کا ایک ہیبت ناک طوفان آیا جس نے پہاڑوں کی ان چوٹیوں کو بھی اپنی غرقابی سے نہ چھوڑا۔
ان ہر دو خیالات و آراء کی ان تمام تفصیلات کے بعد جن کا مختصر خاکہ مضمون زیر بحث میں درج ہے اہل تحقیق کی یہ رائے ہے کہ صحیح مسلک یہی ہے کہ طوفان خاص تھا عام نہ تھا۔ اور یہ مسئلہ بھی محل نظر ہے کہ تمام کائنات انسانی صرف حضرت نوح (علیہ السلام) کی نسل سے ہے ‘اور آیت اِنْ تَذَرْھُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ [19] بھی کچھ اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔
البتہ قرآن عزیز نے ” سنت اللہ “ کے مطابق صرف انھی تفصیلات پر توجہ کی ہے جو موعظت و عبرت کے لیے ضروری تھے اور باقی مباحث سے قطعاً کوئی تعرض نہیں کیا اور ان کو انسانی علوم کی ترقی کے حوالہ کر دیا ‘وہ تو صرف یہ بتانا چاہتا ہے کہ تاریخ کا یہ واقعہ اہل عقل و شعور کو فراموش نہ کرنا چاہیے کہ آج سے ہزاروں سال قبل ایک قوم نے خدا کی نافرمانی پر اصرار کیا اور اس کے بھیجے ہوئے ہادی حضرت نوح (علیہ السلام) کے رشد و ہدایت کے پیغام کو جھٹلایا ‘ ٹھکرایا ‘ اور قبول کرنے سے انکار کر دیا تو خدائے تعالیٰ نے اپنی قدرت کا مظاہرہ کیا اور ایسے سرکشوں اور متمردوں کو طوفان بادو باراں میں غرق کر کے تباہ و برباد کر دیا ‘اور اسی حالت میں حضرت نوح (علیہ السلام) اور مختصر سی ایمان دار جماعت کو محفوظ رکھ کر نجات دی :
{ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَابِ } [20]
پسر نوح (علیہ السلام) کی نسبی بحث
بعض علما نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے اس بیٹے کے متعلق یہ کہا ہے کہ یہ حقیقی بیٹا نہ تھا۔ اور پھر اس بارے میں دو جدا جدا دعوے کیے ایک جماعت کہتی ہے کہ وہ ” ربیب “ تھا یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی کے پہلے شوہر کا لڑکا تھا جو حضرت نوح (علیہ السلام) سے نکاح کے بعد ان کی آغوش میں پلا بڑھا ‘اور دوسری جماعت حضرت نوح (علیہ السلام) کی اس کافرہ بیوی پر خیانت عصمت کا الزام لگاتی ہے۔ان علما کو ان غیر مستند اور دور از صواب تاویلوں کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ ان کے خیال میں پیغمبر کا بیٹا کافر ہو ‘ یہ بہت مستبعد اور عجیب معلوم ہوتا ہے۔
مگر تعجب ہے کہ وہ اس نص قرآنی کو کیوں فراموش کر جاتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ ” آزر “ بت تراش و بت پرست کافر تھے ‘ پس اگر ایک جلیل القدر پیغمبر کے باپ کے کفر سے رسول خدا کی جلالت و عظمت اور منصب رسالت و نبوت میں مطلق فرق نہیں آتا تو پھر عظیم المرتبت رسول و نبی کے بیٹے کے کفر سے اس پیغمبر کی عظمت و جلالت قدر میں کیا نقص آسکتا ہے۔بلکہ ایک حقیقت بیں نگاہ اور حقیقت شناس کے نزدیک تو یہ رب العٰلمین اور خالق کائنات کی قدرت کاملہ کا مظہر اتم ہے کہ وہ بنجر زمین میں گلاب اگا دیتا ہے ‘ اور گلاب کے مہکتے ہوئے پھولوں کے ساتھ خار پیدا کردیتا ہے۔
{ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ } [21]
پس جبکہ قرآن عزیز نے یہ تصریح کی ہے کہ کنعان حضرت نوح (علیہ السلام) کا بیٹا تھا تو بلاوجہ ان رکیک اور بے سند تاویلات کی کیا حاجت ؟
ایک اخلاقی مسئلہ
اس مقام پر اگرچہ علامہ عبد الوہاب نجار نے قرآن عزیز کی تصریح ہی کو تسلیم کیا ہے ‘ تاہم ان کے نزدیک حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی بصراحت قرآن اگر کافر ہو سکتی ہے۔ تو اس پر خیانت عصمت کا الزام عائد کرنا بھی کوئی ناواجب بات نہیں ہے۔
مگر مجھ کو ان جیسے تمام مقامات میں ان بزرگوں سے ہمیشہ اختلاف رہتا ہے اور میں ورطہ حیرت و تعجب میں پڑجاتا ہوں کہ ان علما کے پیش نظر ” نبی و رسول “کے معاملہ میں ان تمام نزاکتوں کا لحاظ کیوں نہیں ‘ جو اخلاق ‘ معاشرت اور تہذیب و تمدن کی زندگی سے وابستہ ہیں۔
مثلاً اسی مقام کو لیجئے کہ صاحب قصص الانبیاء اور بعض دوسرے علما کہتے ہیں کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی جب کافر ہو سکتی ہے تو خائن عصمت کیوں نہیں ہو سکتی ‘اس لیے کہ دوسرا عمل پہلے سے کم درجہ رکھتا ہے ؟ جواب یہ ہے کہ اس کو تسلیم کرلینے کے باوجود کہ کفر زنا سے بہت زیادہ برا اور قبیح عمل ہے ‘مجھے اس سے سخت اختلاف ہے کہ کسی پیغمبر و نبی کی بیوی ان کے حبالہ عقد میں رہتے ہوئے خائن عصمت ہو اور نبی و رسول اس کی اس حرکت سے غافل رہے ‘اس لیے کہ اگر کسی نیک اور صالح انسان کی بیوی شوہر سے چھپ کر اس قسم کی بدعملی میں مبتلا ہوجائے تو یہ ممکن ہے کیونکہ وہ ناواقف رہ سکتا ہے اور جب تک اس کے علم میں یہ بدعملی نہ آئے اس کی ثقاہت وتقویٰ پر کوئی حرف نہیں آتا مگر ایک نبی و رسول کا معاملہ اس سے جدا ہے ‘اس کے پاس صبح و شام خدائے برتر کی وحی آتی ہے اور وہ خدائے برتر کی ہم کلامی سے مشرف ہوتا ہے ‘پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ نبی کے گھر میں ایک فاحشہ و زانیہ اس کی رفیق حیات بھی رہے اور خدا کی وحی اس سے قطعاً خاموش ہو۔
خدا کے برگزیدہ پیغمبر جب اصلاح و ہدایت کے لیے بھیجے جاتے ہیں تو ظاہری و باطنی ہر قسم کے عیوب سے معصوم اور پاک رکھے جاتے ہیں۔تاکہ کوئی ایک شخص بھی ان کے حسب و نسب اور اخلاق و معاشرت پر نکتہ چینی نہ کرسکے ‘ لہٰذا یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ وحی الٰہی اور رب اکبر کی ہم کلامی کے مدعی کے گھر میں بداخلاقی کا جریمہ مستقل ہو رہا ہو اور اس کو بیخبر اور غافل چھوڑ دیا جائے۔
ہمارے سامنے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا واقعہ دلیل راہ ہے ‘اَن ہوئی کو ہوئی کرنے والوں اور بے پر کی اڑانے والوں نے کیا کچھ نہیں کیا ‘نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سمع مبارک نے بھی سنا ‘چند روز بدبخت و خوش بخت بننے والوں کے لیے آزمائش کے بھی ملے ‘مگر آخر کار وحی الٰہی نے معاملہ کو اس طرح صاف کر دیا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو کر رہ گیا۔
یہ ہو سکتا ہے کہ (العیاذ باللّٰہ) پیغمبر اور نبی کی بیوی سے زنا سرزد ہوجائے۔کیونکہ وہ نبی کی طرح معصوم نہیں ہے لیکن یہ محال اور ناممکن ہے کہ اس ارتکاب کے بعد وہ نبی کی بیوی رہے اور وحی الٰہی نبی اور پیغمبر کو اس کی بداخلاقی سے غافل رکھے۔
کفر بلاشبہ سب سے بڑا جریمہ اور گناہ ہے۔لیکن وہ معاشرتی اور اخلاقی بول چال میں بداخلاقی اور فحش نہیں ہے بلکہ ایک عقیدہ ہے جو عقیدہ بدکہلانے کا مستحق ہے ‘اس لیے بعض اسلامی مصالح کی بنا پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل کی شریعتوں اور خود نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکی زندگی میں کافر سے مناکحت کو ممنوع قرار نہیں دیا گیا۔ البتہ مدنی زندگی کے دور میں قرآن عزیز کی نص نے مشرک و مسلم کے درمیان رشتہ مناکحت کو ہمیشہ کے لیے ممنوع قرار دے دیا ‘لیکن زنا کسی حال و کسی وقت میں بھی جائز نہیں رکھا گیا۔
پس اس معاملہ میں کفر و زنا کے تقابل کا سوال صحیح نہیں ہو سکتا بلکہ معاشرتی بدکرداری و نیک کرداری کی بقاء و قیام کا سوال پیدا ہوتا ہے۔لہٰذا میرے نزدیک حضرت نوح (علیہ السلام) کی زندگی پاک کے ساتھ زانیہ رفیقہ کا تعلق ناممکن تھا۔ اگر امرأۃِ نوح ایک مرتبہ بھی ایسا اقدام کرتی تو وحی الٰہی فوراً نبی کو مطلع کر کے تفریق کرا دیتی ‘ یا کم از کم ” توبۃً نصوحاً “ پر جا کر معاملہ ٹھہرتا۔ میں اس سے آگے بڑھ کر یہ جرأت کرتا ہوں کہ اگر خدا نہ کردہ کسی روایت میں بھی اس قسم کے معاملات کا اشارہ پایا جاتا تو بھی ہمارا فرض تھا کہ اس کی صحیح توجیہ تلاش کر کے اصل حقیقت کو سامنے لاتے ‘چہ جائیکہ نہ قرآن عزیز اس کے متعلق کچھ کہتا ہے اور نہ صحیح و ضعیف روایات میں سے کوئی روایت حدیث و سیرت اس کا ذکر کرتی ہے۔تو پھر خواہ مخواہ اس قسم کی دور از کار تاویلات سے عوام و متوسطین اور موافقین و مخالفین کے دل و دماغ پر غلط نقوش نقش کرنے سے بجز مضرت و نقصان کے اور کیا حاصل ہے۔
بہرحال صحیح یہی ہے کہ کنعان حضرت نوح (علیہ السلام) کا بیٹا تھا مگر اس پر حضرت نوح (علیہ السلام) کی ہدایت و رشد کی جگہ اپنی کافر والدہ کی آغوش تربیت اور خاندان و قوم کے ماحول نے برا اثر ڈالا ‘اور وہ نبی کا بیٹا ہونے کے باوجود کافر ہی رہا۔
پسر نوح با بداں بہ نشست خاندان نبوتش گم شد
نبی و پیغمبر کا کام فقط رشد و ہدایت کا پیغام پہنچانا ہے۔ اولاد ‘ بیوی ‘ خاندان ‘قبیلہ اور قوم پر اس کو زبردستی عائد کرنا اور ان کے قلوب کو پلٹ دینا نہیں ہے۔
{ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ } [22]
” تو ان کافروں پر مسلط نہیں کیا گیا۔ “
{ وَمَا اَنْتَ عَلَیْہِمْ بِجَبَّارٍ } [23]
” اور تو ان کو (قبول حق کے لیے) مجبور نہیں کرسکتا۔ “
ارباب تاریخ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے اس بیٹے کا نام کنعان بتایا ہے ‘ یہ تورات کی روایت کے مطابق ہے ‘ قرآن عزیز اس کے نام کی صراحت سے ساکت ہے جو نفس واقعہ کے لیے غیر ضروری تھا۔
چند ضمنی مسائل
طوفان نوح خاص حصہ زمین سے وابستہ رہا ہو یا تمام کرہ زمین سے ‘مذاہب عالم کی تاریخ اور علم آثار ارض سے یہ قطعی ثابت ہو چکا ہے کہ یہ واقعہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔چنانچہ تورات کے علاوہ قدیم ہند و مذہب کی کتابوں میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے اور اگرچہ قرآن عزیز کے بیان کیے ہوئے سادہ اور صاف واقعات کے مقابلہ میں ان میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے ‘تاہم نفس واقعہ کے اظہار میں یہ سب متفق نظر آتی ہیں۔
مولانا سید ابو نصر احمد حسین بھوپالی نے اپنی کتاب ” تاریخ الادب الہندی “ [24] میں تفصیل کے ساتھ اس واقعہ کو نقل کیا۔ہے ‘ جس کا عنوان ہے ” برہمانا داوبانیشاء “اس میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو مانو کہا گیا ہے ‘ جس کے معنی ” خدا کا بیٹا “ یا ” نسل انسانی کا جد اعلیٰ “ بتائے جاتے ہیں۔! قرآن عزیز نے صراحت کی ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال تبلیغ و دعوت کا فرض انجام دیا :
{ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَلَبِثَ فِیْھِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا } [25]
” اور بلاشبہ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی جانب رسول بنا کر بھیجا پس وہ رہا ان میں پچاس کم ایک ہزار سال۔ “
یہ عمر موجودہ عمر طبعی کے اعتبار سے بعید از عقل معلوم ہوتی ہے لیکن محال اور ناممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ کائنات کی ابتدا میں ہموم و افکار اور امراض کی یہ فراوانی نہیں تھی جو چند ہزار برسوں میں انسانی تمدن کے مصنوعی سامانوں نے پیدا کردی ہے اور تاریخ قدیم بھی یہ اقرار کرتی ہے کہ چند ہزار سال قبل کی عمر طبعی کا تناسب موجودہ تناسب سے بہت زیادہ تھا۔نیز حضرت نوح (علیہ السلام) کی عمر طبعی کا معاملہ اسی قسم کی مستثنیات میں سے ہے ‘جو انبیا ۔ کی تاریخ میں موہبت الٰہی اور آیت اللہ کی فہرست میں شمار ہوتی ہیں۔اور جن کی حکمت وغایت کا معاملہ خود خدائے تعالیٰ کے سپرد ہے۔
قرآن عزیز نے کسی نبی اور پیغمبر کی دعوت و تبلیغ کی مدت کا صراحت کے ساتھ اس طرح تذکرہ نہیں فرمایا جیسا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ میں مذکور ہے ‘لہٰذا آج تقریباً سات ہزار سال قبل کی طویل عمر کے تاریخی شواہد کے اعتبار سے اگر اس کو صحیح تسلیم کیا جائے تو اس کی پوری گنجائش ہے اور اگر تاریخ کی ان شہادتوں کو غیر وقیع مان کر انکار کر دیا جائے تب بھی اس واقعہ کو مخصوص حالات کے زیر اثر ایک عطیہ الٰہی سمجھنا چاہیے ‘جو ایک رسول اور پیغمبر کی دعوت و تبلیغ کی حکمتوں سے وابستہ ہے ‘ حق اور صحیح مسلک یہی ہے اور اس مدت کو گھٹانے کے لیے دور از کار تاویلات کی قطعاً ضرورت نہیں۔
مشہور شاعر ابو العلاء معری اپنے چند اشعار میں یہ بیان کرتا ہے کہ قدیم زمانہ میں یہ دستور تھا کہ
لوگ سنہ ‘ عام (سال) بول کر شہر (مہینہ) مراد لیا کرتے تھے ‘ اس قول کے پیش نظر بعض مورخین کا یہ خیال ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی تبلیغی خدمات کی عمر اسی سال ہوتی ہے اور ان کی کل عمر ڈیڑھ سو سال سے آگے نہیں بڑھتی۔
لیکن یہ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ اگر ابو العلاء کا یہ قول تسلیم بھی کر لیا جائے تو یہ عرب کے کسی غیر معروف حساب کا تذکرہ سمجھا جائے گا ‘کیونکہ قرآن عزیز کے نزول کے وقت عرب کے کسی قبیلہ کے متعلق یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ ” سنہ “ یا ” عام “ بول کر ” شہر “ (مہینہ) مراد لیا کرتے تھے ‘لہٰذا قرآن عزیز کی بیان کردہ تعبیر پر اس قول کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔
نیز سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ قرآن عزیز نے جس انداز میں اس مدت کا ذکر کیا ہے ‘اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ نوح (علیہ السلام) کی غیر معمولی تبلیغی مدت کے اظہار کو خاص اہمیت دیتا رہتا ہے ‘ورنہ قرآن عزیز کی عام سنت یہ ہے کہ وہ سخت اہم ضرورت کے بغیر واقعات و حالات کی اس قسم کی جزئیات سے بہت ہی کم تعرض کرتا ہے۔
" بعض مفسرین نے اسرائیلیات (تورات و یہود کی روایات) سے یہ نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طوفان نوح (علیہ السلام) سے چالیس سال قبل قوم نوح کی عورتوں کو بانجھ کر دیا تھا کہ جدید نسل عالم وجود میں نہ آئے۔مگر یہ روایت ” غپ شپ “ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی اور غالباً اسے اس لیے گھڑا گیا ہے کہ یہ اعتراض پیدا نہ ہو کہ طوفان نوح (علیہ السلام) کی صورت میں بچوں نے کیا قصور کیا تھا کہ وہ بھی لقمہ اجل ہو گئے۔ان احتیاط پسند حضرات کو شاید یہ بات فراموش ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کا قانون جس کا نام ” سنۃ اللّٰہ “ ہے ‘اس بارے میں کیا ہے ؟ ورنہ ان کو ایسی لایعنی روایت کے بیان کی ضرورت پیش نہ آتی جو اکثر یہود کے غلط افکار و عقائد کی مخلوق ہوتی ہیں۔
کائنات ہست و بود میں ” عادۃ اللّٰہ “ یہ جاری ہے کہ امراض ‘ وبا ‘ طوفان اور زلزلے جیسے امور جب بھی کسی سبب سے نمودار ہوتے ہیں ‘
خواہ وہ عذاب کے لیے ہوں یا عام حالات زندگی کے اعتبار سے کسی خارجی سبب کے ذریعہ ظاہر ہوئے ہوں ‘ تو جس مقام پر وہ نازل ہوتے ہیں ‘وہاں کی آبادی میں نیک و بد ‘ ولی و شیطان ‘ زاہد و عابد ‘ اور فاسق و فاجر کے مابین کوئی تمیز نہیں کرتے بلکہ اسباب عادیہ کے زیر اثر مسببات کو وجود میں لانے کے لیے منجانب اللہ مامور ہیں ‘اور دنیوی زندگی کے اعتبار سے ان کی لپیٹ میں ہر وہ انسان آجاتا ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے ان اسباب کا مسبّب بن گیا ہے۔
البتہ عالم آخرت کے اعتبار سے یہ امتیاز نمایاں رہتا ہے کہ فاسق و فاجر اور خدا کے دشمن کے لیے یہ اسباب عذاب الٰہی بن جاتے ہیں اور مطیع و فرماں بردار اور نیک کردار انسان کے لیے موجب سعادت اور درجات عالیہ کا مستوجب ہوتے ہیں۔
کیا ہماری نگاہیں روزمرہ یہ مشاہدہ نہیں کرتیں کہ جب زلزلہ آتا ہے۔تو نیک و بد دونوں پر یکساں اثر کرتا ہے ‘ وبا پھیلتی ہے تو نیک کردار و بدکردار دونوں ہی اس کی زد میں آجاتے ہیں اور دونوں کے رشتہ حیات کے لیے وہ یکساں مہلک ثابت ہوتی ہے۔
البتہ یہ بات فراموش نہ کرنی چاہیے کہ جب کبھی اس قسم کا عذاب نبی اور پیغمبر کی پیہم نافرمانی کی وجہ سے کسی قوم پر نازل ہوتا ہے۔تو پیغمبر کو بذریعہ وحی اس کی اطلاع دے دی جاتی ہے اور یہ حکم ہوجاتا ہے کہ وہ مع اپنے پیرؤوں کے جو اسلام کے دامن سے وابستہ ہو گئے ہیں۔عذاب کی اس بستی سے باہر چلا جائے ‘ اور ببانگ دہل یہ کہہ کر جائے کہ یا قوم اس کے لائے ہوئے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر دے ورنہ خدا کے عذاب کو قبول کرے ‘اور اس طرح مومنین اس عذاب کی زد سے محفوظ رہتے ہیں۔
بہرحال مفسرین نے جس احتیاط کی خاطر اسرائیلیات کے اس ذخیرہ سے مدد لینی چاہی ہے وہ قطعاً بے ضرورت ہے۔
پس طوفان نوح اور قوم نوح کے مرد و عورت ‘ بوڑھے جوان ‘بچے اور بچیاں سبھی طوفان کی ہلاکت خیزی کا شکار ہوئے اور دنیائے کفر کا وہ حصہ سبھی برباد کر دیا گیا ‘اب یہ معاملہ اللہ کے سپرد ہے کہ جن عاقل و بالغ انسانوں نے نافرمانی کی تھی۔ ان کے حق میں یہ دائمی اور سرمدی عذاب بنے اور جو معصوم اور غیر عاقل تھے وہ آخرت کے عذاب سے مامون و محفوظ قرار پائیں۔
سفینہ نوح طوفان کے بعد کس مقام پر ٹھہرا ؟ تورات نے اس کا نام اراراط بتایا [26] ‘حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت و تبلیغ اس سرزمین سے وابستہ تھی ۔ جو دجلہ اور فرات کے درمیان واقع ہے اور یہ دونوں دریا آرمینیہ کے پہاڑوں سے نکلے ہیں ‘اور جدا جدا بہہ کر عراق کے حصہ زیریں میں آ کر مل گئے ہیں ‘ پھر خلیج فارس میں سمندر میں جا گرے ہیں ‘آرمینیہ کے یہ پہاڑ اراراط کے علاقہ میں واقع ہیں ‘اسی لیے تورات میں ان کو اراراط کا پہاڑ کہا ہے ‘مگر قرآن عزیز نے اس پورے علاقہ کی بجائے صرف اس خاص مقام کا تذکرہ کیا ہے جہاں کشتی جا کر ٹھہری تھی ‘یعنی جودی کا ‘ تورات کے شارحین کا یہ خیال ہے کہ جودی اس سلسلہ کوہ کا نام ہے جو اراراط اور جارجیا کے پہاڑی سلسلہ کو باہم ملاتا ہے ‘اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سکندر اعظم کے زمانے کی یونانی تحریرات بھی اس کی تصدیق کرتی ہیں ‘اور اس تاریخی واقعہ کا تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آٹھویں صدی مسیحی تک اس جگہ ایک معبد اور ہیکل موجود تھا جو ” کشتی کا معبد “ کہلاتا تھا۔
ایک مفسر نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے کنعان کے نجات نہ پانے کے متعلق لطیف اشارہ کیا ہے۔جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) جلیل القدر پیغمبر اور مستجاب الدعوات تھے ‘انھوں نے دعا اور بددعا دونوں حالتوں میں خود اپنے بیٹے کو فراموش کر دیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ کافر بیٹے کی سرکشی پاداش عمل کی صورت میں نمودار ہوئی اور وہ بھی ہالکین کے ساتھ غرق دریا ہو کر رہ گیا۔
حضرت نوح (علیہ السلام) نے جبکہ وہ قوم کو راہ راست پر لانے سے عاجز آگئے تھے سب سے پہلے یہ دعا کی :
{ رَبِّ لاَ تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا ۔ اِنَّکَ اِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا۔ } [27]
” اے پروردگار تو اس زمین پر کسی بسنے والے کافر کو زندہ نہ چھوڑ اس لیے کہ اگر تو ان کو زندہ چھوڑے گا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتے رہیں گے اور ان کی اولاد کا سلسلہ بھی گمراہی اور کفر ہی پر قائم رہے گا۔ “
اور یہ قطعاً فراموش کر دیا کہ اس موقع پر کنعان کو مستثنیٰ کر کے اس کے لیے قبول ہدایت کی دعا مانگنا چاہیے ‘یا شاید اس وقت تک ان کو بیٹے کے کفر کا علم ہی نہ تھا۔
دوسری مرتبہ جناب باری میں یہ دعا کی :
{ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ } [28]
” اے پروردگار مجھ کو اور میرے ماں باپ کو بخش دے اور اس شخص کو بھی بخشش سے نواز جو مومن ہو کر میرے گھر میں داخل ہوا اور مومنین و مومنات کو بھی بخش دے۔ “
اس موقع پر بھی انھوں نے کنعان کا استثناء نہیں کیا اور اس کے مومن ہو کر گھر میں داخل ہونے کی دعا نہیں فرمائی۔ تیسری مرتبہ پھر یہ دعا کی :
{ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا تَبَارًا } [29]
” اور ظالموں کے لیے ہلاکت کے سوا کچھ اضافہ نہ کر۔ “
کنعان ظالم تھا اس لیے کہ کافر تھا ‘ موقع تھا کہ استثناء کر کے اس کے لیے ظالم نہ رہنے کی دعا بھی فرما لیتے اور اگر معلوم نہ تھا
تو یہ بدقسمت بیٹے کی بدقسمتی پر ازلی مہر تھی جو ثبت ہو کر رہی۔پس جب وقت قبولیت دعا آپہنچا اور کنعان کی سرکشی بدستور رہی تو اب محبت پدری کا جوش خدا کے عادلانہ فیصلہ کے سامنے نہ ٹھہر سکا ‘اور اس کی نجات کی دعا پر اپنی نادانی کے اعتراف کے ساتھ عذر خواہی کرنی پڑی ‘ اور بایں ہمہ جلالت قدر ‘خدا کے سامنے اپنی بندگی کے اظہار ہی کو بہتر سمجھ کر عبد کامل ہونے کا ثبوت پیش فرمایا ‘ اور درگاہ الٰہی سے شرف مغفرت اور قربت الٰہی کو حاصل کیا۔
اہم نتائج
ہر ایک انسان اپنے کردار و عمل کا خود ہی جواب دہ ہے ‘اس لیے باپ کی بزرگی بیٹے کی نافرمانی کا مداوا اور علاج نہیں بن سکتی اور نہ بیٹے کی سعادت باپ کی سرکشی کا بدل ہو سکتی ہے ‘حضرت نوح (علیہ السلام) کی نبوت و پیغمبری کنعان کے کفر کی پاداش کے آڑے نہ آسکی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیغمبرانہ جلالت قدر شرک آزر کے لیے نجات کا باعث نہ ہو سکی۔
( (کُلْ یَّعْمَلٌ عَلیٰ شَاکِلَتِہٖ ) )
” ہر شخص اپنے اپنے ڈھنگ پر کام کرتا ہے۔ “
! بری صحبت زہر ہلاہل سے بھی زیادہ قاتل ہے اور اس کا ثمرہ و نتیجہ ذلت و خسران اور تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ‘انسان کے لیے جس طرح نیکی ضروری شے ہے اس سے زیادہ صحبت نیکاں ضروری ہے ‘ اور جس طرح بدی سے بچنا اس کی زندگی کا نمایاں امتیاز ہے اس سے کہیں زیادہ بروں کی صحبت سے خود کو بچانا ضروری ہے۔
پسر نوح با بداں بہ نشست
خاندان نبوتش گم شد
سگ اصحاب کہف روزے چند
پئے نیکاں گرفت مردم شد
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند
" خدائے تعالیٰ پر صحیح اعتماد اور بھروسا کے ساتھ ظاہری اسباب کا استعمال توکل کے منافی نہیں ہے بلکہ توکل علی اللہ کے لیے صحیح طریق کار ہے ‘ تبھی تو طوفان نوح سے بچنے کے لیے کشتی نوح ضروری ٹھہری۔
انبیا سے پیغمبر خدا اور معصوم ہونے کے باوجود بہ تقاضائے بشریت لغزش ہو سکتی ہے۔مگر وہ اس پر قائم نہیں رہتے بلکہ منجانب اللہ ان کو تنبیہ کردی جاتی ہے اور اس سے ہٹا لیا جاتا ہے ‘حضرت آدم اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعات اس کے لیے شاہد عدل ہیں ‘ نیز وہ عالم الغیب بھی نہیں ہوتے جیسا کہ اسی واقعہ میں :
{ فَلَا تَسْئَلْنِ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ} [30]
سے واضح ہے۔
اگرچہ پاداش علم کا خدائی قانون کائنات کے ہر گوشہ میں اپنا کام کر رہا ہے ‘لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر جرم اور ہر طاعت کی سزا یا جزا اسی عالم میں مل جائے ‘کیونکہ یہ کائنات ‘ عمل کی کشت زار ہے اور پاداش کردار کے لیے معاد اور عالم آخرت کو مخصوص کیا گیا ہے۔تاہم ظلم اور غرور ان دو بدعملیوں کی سزا کسی نہ کسی نہج سے یہاں دنیا میں بھی ضرور ملتی ہے۔امام ابوحنیفہ فرمایا کرتے تھے کہ ظالم اور متکبر اپنی موت سے قبل ہی اپنے ظلم و کبر کی کچھ نہ کچھ سزا ضرور پاتا ہے ‘اور ذلت و نامرادی کا منہ دیکھتا ہے ‘ چنانچہ خدا کے سچے پیغمبروں سے الجھنے والی قوموں اور تاریخ کی ظالم و مغرور ہستیوں کی عبرتناک ہلاکت و بربادی کی داستانیں اس دعویٰ کی بہترین دلیل ہیں۔
حالات زندگی
آدم علیہ السلام کے دنیا میں آنے کے بعد ان کی اولاد دنیا میں خوب پھلی پھولی، لیکن ایک مدت گذر جانے کے بعد وہ لوگ خدا کو بھول چکے تھے اور ایک خدا کی بجائے انھوں نے مٹی اور پتھر کے کئی خدا بنالیے تھے، نہ صرف ان کی عبادت گاہیں بتوں سے اٹی پڑی تھیں بلکہ ہر گھر میں بت رکھے ہوئے تھے جن کی وہ پوجا کیا کرتے اور ان سے مرادیں مانگا کرتے تھے۔ نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کے احسانات جتلا کر سیدھے راستے پر چلنے کی تلقین کی اور اس بری راہ سے منع فرمایا، جس پر چل رہے تھے اور ان کو یہ بھی بتادیا کہ اگر تم بتوں کو چھوڑ کر ایک خدا کی طرف رجوع نہ ہوئے تو تم پر عذاب نازل ہونے کا خطرہ ہے اور کہا کہ مجھے اللہ نے تمھاری طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، اس پر ان لوگوں نے نوح علیہ السلام کا تمسخر اڑایا اور کہا بھلا یہ بتاؤ کہ تم نبی کیسے بن گئے، تم تو ہمارے جیسے گوشت پوست کے بنے ہوئے ہو اور ہم میں ہی پیدا ہوئے ہو، تم میں ایسی کون سی چیز ہے، جس سے ہم تمھیں نبی سمجھیں اور اگر خدا کو نبی ہی بھیجنا تھا تو وہ کسی فرشتے کو نبی بنا کر بھیج دیتا۔ نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کے احسانات جتلائے اور کہا تم کو چاہیے کہ ان بیکار بتوں کی پرستش چھوڑ کر ایک خدا کی عبادت کرو اور میں اس کی تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا، تمھاری ہی بھلائی کے لیے تم کو نصیحت کرتا ہوں۔ نوح علیہ السلام نے کوئی ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم میں وعظ و تبلیغ کی اور کوشش کی کہ وہ خدائے واحد کے سچے پرستار بن جائیں مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوا، بلکہ نوح علیہ السلام وعظ فرماتے تو ان کو ٹھٹھوں میں اڑاتے، کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے تاکہ ان کی آواز کانوں میں نہ پہنچ جائے، صرف چند لوگ تھے جو آپ پر ایمان لائے۔ قوم کی یہ سرکشی اور نافرمانی دیکھ کر نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا کہ اے اللہ، میں تو اس قوم سے تنگ آگیا ہوں، اب تو ہی ان سے بدلہ لے۔
کشتی نوح
خداوند تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ ایک کشتی بناؤ اور یہ بھی حکم دے دیا کہ دیکھنا اب کسی کی سفارش نہ کرنا، اب ان پر ضرور عذاب نازل ہوکے رہے گا، نوح علیہ السلام خدا کے حکم کے مطابق کشتی بنانے میں لگ گئے۔ جب کشتی بن کر تیار ہو گئی تو خدا نے حکم دیا کہ اپنے اہل اور ان لوگوں کو کشتی پر سوار کرلو جو مجھ پر ایمان لے آئے ہیں اور ہر جانور کا ایک ایک جوڑا بھی کشتی میں رکھ لو۔
قوم نوح پر عذاب
جب سب لوگ کشتی میں بیٹھ گئے تو خدا کے حکم سے زمین کے سوتے پھوٹ پڑے اس کے ساتھ ہی موسلا دھار بارش شروع ہو گئی، زمین پر پانی بڑھنے لگا اور نوح علیہ السلام کی کشتی پانی میں تیرنے لگی، پانی بڑھا تو نوح علیہ السلام نے دیکھا کہ ان کا بیٹا پانی میں ڈوبنے لگا ہے آپ نے اسے آواز دی کہ اب بھی آجاؤ تاکہ خدا کے عذاب سے بچ سکو، مگر اس نے جواب دیا تم جاؤ، میں کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اپنی جان بچالوں گا۔
پانی تھا کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ دنیا کے نافرمان اور سرکش لوگ اس سیلاب میں فنا کی گھاٹ اتر گئے اور نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑی کی چوٹی پر جا کر ٹھہر گئی۔
اب خدا کے حکم سے سیلاب تھم گیا اور زمین نے سارا پانی اپنے اندر جذب کر لیا۔
اب خدا نے نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ کشتی سے اتر جاؤ، تجھ پر اور وہ لوگ جو تجھ پر ایمان لائے ہیں ان پر ہماری رحمتیں برکتیں نازل ہوں گی۔
چوں کہ اس طوفان میں دنیا کے تمام لوگ ہی فنا ہو گئے تھے، صرف چند لوگ ہی زندہ بچے تھے، اس لیے نوح علیہ السلام کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے، انھی کی اولاد اس وقت دنیا میں آباد ہے۔
جودی کی پہاڑی بحیرہ مردار (بحر لوط) کے مغرب میں اسرائیل میں واقع ہے۔ آج کل بحر مردار کے اس علاقے میں سالانہ بارش 2 سے 4 انچ ہوتی ہے۔ لیکن یہ علاقہ دوسرے سمندروں کی سطح سے 1412 فٹ نیچے ہے۔ اگر آج بھی اس علاقے میں شدید ترین بارش ہو جائے تو پانی کے نکل بہنے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور یہاں ایک عظیم الشان جھیل بن سکتی ہے۔
امام احمد رضا خان کی تحقیق
یہاں یہ بتانا ضروری ہے ملفوظات مجدد مات حاضرہ میں جو تحقیق احمد رضا خان بریلوی کی درج ہے وہ بھی کافی عمدہ ہے۔ فرماتے ہیں:-
ان کی تعمیر آدم علیٰ نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام سے چودہ ہزار (14٠٠٠) برس پہلے ہوئی۔ نوح علیہ السلام کی امت پر جس روز عذابِ طوفان نازل ہوا ہے پہلی رجب تھی، بارش بھی ہو رہی تھی اور زمین سے بھی پانی ابل رہا تھا۔ بحکم رب العٰلمین نوح علیہ السلام نے ایک کشتی تیار فرمائی جو 1٠ رجب کو تیرنے لگی۔ اس کشتی پر 8٠ آدمی سوار تھے جس میں دو نبی تھے( آدم و نوح علیہم السلام)۔ نوح علیہ السلام نے اس کشتی پر آدم علیہ السلام کا تابوت رکھ لیا تھا اور اس کے ایک جانب مرد اور دوسری جانب عورتیں بیٹھی تھیں۔ پانی اس پہاڑ سے جو سب سے بلند تھا 3٠ ہاتھ اونچا ہوگیاتھا۔ دسویں محرم کو چھ (٦) ماہ کے بعد سفینہ مبارکہ جودی پہاڑ پر ٹہرا۔ سب لوگ پہاڑ سے اترے اور پہلا شہر جو بسایا اس کا ”سوق الثمانین” نام رکھا۔ یہ بستی جبل نہاوند کے قریب متصل ”موصل” شہر (عراق) میں واقع ہے۔ اس طوفان میں دو عمارتیں مثل گنبد ومنارہ باقی رہ گئی تھیں جنہیں کچھ نقصان نہ پہنچا۔ اس وقت روئے زمین پر سوائے ان (دو عمارتوں) کے اور عمارت نہ تھی۔ امیر امومنین علی کرم اللہ تعالٰیٰ وجہہ الکریم سے انھیں عمارتوں کی نسبت منقول ہے۔
”بنی الھرمان النسر فی سرطان”
یعنی دونوں عمارتیں اس وقت بنائی گئیں جب ”ستارہ نسر” نے ”برج سرطان” میں تحویل کی تھی، نسر دوستارے ہیں: ”نسر واقع” و ”نسر طائر” اور جب مطلق بولتے ہیں تو اس سے ”نسر واقع” مراد ہوتا ہے۔ ان کے دروازے پر ایک گدھ (نما) کی تصویر ہے اور اس کے پنجے میں گنگچہ (گرگٹ، کھنکھجورہ، بچھو) ہے جس سے تاریخ تعمیر کی طرف اشارہ ہے۔ مطلب یہ کہ جب ”نسر واقع برج سرطان میں آیا اس وقت یہ عمارت بنی جس کے حساب سے (12٦4٠) بارہ ہزار چھ سو چالیس سال ساڑے آٹھ مہینے ہوتے ہیں۔ ستارہ (نسر واقع) (64) چونسٹھ برس قمری (7) مہینے، (2٧)ستائیس دن میں ایک درجہ طے کرتا ہے اور اب (ستارہ نسر واقع) برج جدی کے سولہویں (16) درجہ میں ہے تو جب سے چھ (6) برج ساڑھے پندرہ درجے سے زائد طے کرگیا۔
آدم علیہ السلام کی تخلیق سے بھی (7770 سال) پونے چھ ہزار برس پہلے کے بنے ہوئے ہیں کہ ان کی (سیدنا آدم علیہ السلام) آفرینش کو (7000) سات ہزار برس سے کچھ زائد ہوئے لاجرم یہ قوم جن کی تعمیر ہے کہ پیدائش آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے (٦٠٠٠٠)ساٹھ ہزار برس زمین پر رہ چکی ہے۔” [31]
حوالہ جات
- ↑ صحیح البخاری ‘ کتاب التفسیر ‘ باب ذریۃ من حملنا مع نوح ‘ حدیث : ٤٧١٢۔
- ↑ مجموع فتاوى و رسائل الشیخ محمد صالح العثیمین المجلد الاول - باب الرسل
- ↑ تفسیر قرطبی،ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابوبکر قرطبی التحریم،آیت 10
- ↑ تاریخ اسلام از سید نجم الحسن کراروی
- ↑ (کتاب پیدائش ‘ باب ٥)
- ↑ (ھود : ١١/٢٧ تا ٣١)
- ↑ (نوح : ٧١/١ تا ١٠)
- ↑ (نوح : ٧١/٢٣)
- ↑ (ھود : ١١/٣٢)
- ↑ (ھود : ١١/٣٣)
- ↑ (ھود : ١١/٣٦)
- ↑ (نوح ٧١/٢٦‘ ٢٧)
- ↑ (ھود : ١١/٣٧)
- ↑ (ھود : ١١/٤٥ تا ٤٨)
- ↑ (ھود : ١١/٤٠)
- ↑ (ھود : ١١/٤٣)
- ↑ (ھود : ١١/٤٣)
- ↑ (ھود : ١١/٤٤)
- ↑ (نوح : ٧١/٢٧)
- ↑ (زمر : ٣٩/٢١)
- ↑ (مومنون : ٢٣/١٤)
- ↑ (الغاشیۃ : ٨٨/٢٢)
- ↑ (ق : ٥٠/٤٥)
- ↑ صفحہ ٣٤‘ ٣٥
- ↑ (العنکبوت : ٢٩/١٤)
- ↑ ١؎ کتاب پیدائش ‘ باب ٨‘ آیت ٤ ہے
- ↑ (نوح : ٧١/٢٦‘ ٢٧)
- ↑ (نوح : ٧١/٢٨)
- ↑ (نوح : ٧١/٢٨)
- ↑ (ھود : ١١/٤٦)
- ↑ ملفوظات مجددماۃ حاضرہ حصہ اول ص73۔74"