زید بن علی
| ||||
---|---|---|---|---|
(عربی میں: زيد بن علي) | ||||
معلومات شخصیت | ||||
پیدائش | سنہ 695ء [1] مدینہ منورہ |
|||
وفات | 5 جنوری 740ء (44–45 سال)[1] کوفہ |
|||
وجہ وفات | لڑائی میں مارا گیا | |||
مدفن | کوفہ | |||
شہریت | سلطنت امویہ | |||
اولاد | یحیی بن زید ، عیسی بن زید | |||
والد | زین العابدین | |||
بہن/بھائی | ||||
خاندان | علوی | |||
عملی زندگی | ||||
استاد | واصل ابن عطا | |||
نمایاں شاگرد | ابو حنیفہ | |||
پیشہ | امام ، الٰہیات دان ، فقیہ ، محدث ، مفسر قرآن ، انقلابی | |||
مادری زبان | عربی | |||
پیشہ ورانہ زبان | عربی | |||
شعبۂ عمل | فقہ ، تفسیر قرآن | |||
عسکری خدمات | ||||
لڑائیاں اور جنگیں | زید ابن علی کی بغاوت | |||
درستی - ترمیم |
زید بن علی (پیدائش: 695ء— وفات: 5 جنوری 740ء) زین العابدین اور جیدہ السندھی کے فرزند تھے۔
حالات زندگی
بنو ہاشم حصول خلافت کی جدوجہد میں بنو امیہ کے سیاسی حریف تھے اور سیدنا امام حسن علیہ السلام کی نسل سے تھے۔ سانحہ کربلا کے بعد بنو ہاشم ایک عرصہ تک اس کش مکش سے الگ رہے۔ امام سیدنا حضرت زین العابدین علیہ السلام جنہوں نے کربلا کے لرزہ خیز واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے وہ اس آرزو سے قطعاً لا تعلق رہے۔ اگرچہ امیر المومنین سیدنا امام حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ تعالی وجہہ کی فاطمی اولاد ابھی تک مہر بلب تھی لیکن نئی نسل کے ذہنوں میں خلافت کے حصول کی خواہش دوبارہ زندہ ہو چکی تھی۔ چنانچہ امام زید بن علی نے اپنی اس خواہش کا اظہار بھی کسی محفل میں کر دیا۔ ایک بار آپ اپنے کسی خاندانی وقف کے تنازع کے فیصلہ کے لیے ہشام سے ملنے دمشق گئے۔ ہشام آپ کی آرزوئے خلافت سے آگاہ تھا، آپ سے اس حسن سلوک اور مروت سے پیش نہ آیا جس کے آپ مستحق تھے۔ اول تو دربار میں باریابی ہی کافی وقت کے بعد ہوئی لیکن جب باہم گفتگو کا وقت آیا تو دونوں کے درمیان میں تلخ کلامی ہوئی اور کچھ نازیبا کلمات بھی استعمال کیے گئے۔ امام زید بن علی کوفہ سے واپس چلے گئے۔ بعض مورخین نے لکھا ہے کہ خود ہشام نے آپ کو اپنے تنازع کا تصفیہ کے لیے والی کوفہ کے پاس بھجوا دیا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے آپ کو خلافت کے حصول کی کوشش سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ اور کوفیوں کی بدفطرتی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا۔
” | اہل عراق کا ہرگز اعتبار نہ کیجیے انھوں نے ہمارے باپ داد کو دھوکا دیا۔ | “ |
لیکن امام زید بن علی کوفیوں کے جال میں پھنس گئے۔ 15 ہزار کوفیوں نے آپ کے ہاتھ پربیعت کر لی اور ایک تاریخ خروج کی بھی مقرر کر دی۔
وفات
جب یوسف بن عمرو والی کوفہ مقابلہ کے لیے آیا تو سب کوفی ساتھ چھوڑ گئے۔ صرف دو سو جانثار باقی رہ گئے۔ تاہم آپ کے پایہ استقلال میں لغزش نہ آئی اور نہایت ثابت قدمی سے میدان جنگ میں ڈٹے رہے یہاں تک کہ ایک تیر آپ کی پیشانی میں لگا اور اس کے نکالتے ہی آپ کی روح پرواز کر گئی۔ آپ کی وفات کا واقعہ صفر 101ھ بمطابق جنوری 740ء میں پیش آئی
زیدیہ
آپ کی وفات کے بعد ایک مستقل فرقہ وجود میں آگیا جو زیدیہ کہلایا۔ آپ کے ماننے والے امام علی ابن حسین کے بعد امام محمد باقر کی بجائے آپ کو امام مانتے ہیں۔ اس فرقہ کے ماننے والوں کی اب بھی کافی تعداد موجود ہے۔ یہ فرقہ خلافت کو بھی تسلیم کرتا ہے اور امامت کو بھی مانتا ہے۔ زیدی سادات انہی کی اولاد سے ہیں اگرچہ ان کی اکثریت زیدیہ فرقہ سے نہیں بلکہ شیعہ یا سنی فرقہ سے تعلق رکھتی ہے۔
حوالہ جات
- ^ ا ب جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/10241615X — اخذ شدہ بتاریخ: 13 اگست 2015 — اجازت نامہ: CC0