آستر ایک خدا پرست یہودی خاتون تھی جسے ایران کی ملکہ بننے کا شرف حاصل ہوا۔ آستر کے چچا مردکی نے آستر کو پالا پوسا تھا اور اُس کی تربیت کی تھی۔ ہامان بادشاہ کا مشیر تھا لیکن یہودیوں کا جانی دشمن تھا۔ اُس نے بادشاہ سے یہودیوں کے قتل عام کا فرمان حاصل کر کے تمام صوبوں میں بھجوا دیا۔ مردکی کو اس سازش کا علم ہوا اور اُس نے ملکہ آستر کی مدد سے یہودیوں کو ہامان کی سازش سے بچا لیا۔ ہامان بادشاہ کی نظر میں گر گیا اور پھانسی کی سزا پائی۔
مردکی کو ہامان کی جگہ بادشاہ کا مشیر خاص مامور کیا گیا اور اپنی بھتیجی ملکہ آستر کی مدد سے یہودیوں کے قتل عام کو رکوانے میں کامیاب ہوا۔ اس مختصر سی کتاب میں ان تین اشخاص یعنی ہامان، مردکی اور ملکہ آستر کی داستان درج ہے اور یہ کتاب جلاوطن یہودیوں کی تاریخ کا ایک روشن باب بھی کہلاتا ہے۔
اس کتاب میں جس بادشاہ اخسویرس کا ذکر ہے وہ یونانی زبان میں Xerxesکے نام سے مشہور ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ اس بادشاہ کی مملکت قدیم ہندوستان کے شمال مغربی علاقوں سے لے کر مشرقی افریقہ میں ایتھوپیا (Ethiopia) تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس بادشاہ کی تخت نشینی کا سال 486 قبل مسیح بتایا جاتا ہے۔
اس کتاب کے مصنف کے بارے میں علماء میں اتفاق الرائے نہیں ہے۔ بعض اسے مردکی کی تصنیف مانتے ہیں اور بعض اسے عزرا یا نحمیاہ سے منسوب کرتے ہیں۔ مصنف خواہ کوئی بھی ہو، اس حقیقت سے کسی کو انکار ہیں کہ آستر کا مصنف اہل ایران کے رسم و رواج اور اُن کے تمدن سے بخوبی آگاہ تھا اور ایک خداترس انسان تھا اور اہل یہود کے لیے اپنے دل میں درد رکھتا تھا۔
یہودیوں کے اس قتل عام سے نجات پانے کی یادگار پوریم کے تہوار سے منائی جاتی ہے جو بڑی ضیافتوں اور خوشی کا دن سمجھا جاتا ہے۔ یہاں اس نکتہ کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ خدا اپنے منصوبوں کو بجائے خود کس طرح انسانوں کے ذریعہ عملی جامہ پہناتا ہے، اس لیے ہمیں ہر وقت خدا کی مرضی پر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
شہنشاہ کے دار الخلافہ سوسن (Shushan)میں واقع شاہی محل میں سازش (باب 1 تا باب 2)
یہودیوں کے برخلاف ہامان کی سازش (باب 3 تا باب 5)
یہودیوں کی مُخلصی اور پُوریم کا آغاز(باب 6 تاباب 10)