آیت اللہ

اہل تشیع میں سب سے بڑے فقیہ یا عالم کے لئے اعزازی لقب یا خطاب

آیت اللہ ایک اعزازی لقب ہے جو اہل تشیع میں درجہ اول اور درجہ دؤم کے فقہا و علما کو دِیا جاتا ہے۔اِس اعزازی لقب کو فقہا اور علما کے علمی مقام اور منزلت کی خاطر اطلاق کیا جاتا ہے۔اس کا لفظی مطلب ہے اللہ کی نشانی۔ یہ صرف ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اصولِ دین اور فقہ اور شریعت میں مسلمہ علم رکھتے ہوں۔ شیعہ مسلمان اپنے مسائل کے شریعت کے مطابق حل کے لیے ان سے رجوع کرتے ہیں۔

آیت اللہ خمینی قم شہر میں - (1964ء)

تاریخ

ترمیم

اہل تشیع میں خصوصاً تاریخ کے ہر دور میں فقہا اور اہل علم حضرات کو مختلف قسم کے خطابات اور القابات دیے جاتے رہے ہیں جیسے کہ: مفید، صدوق، شیخ الطائفہ، شیخ الاسلام، حجۃ اللہ، حجۃ الاسلام اور ملا وغیرہ۔ اِن اعزازی خطابات کا مقصد متعلقہ اشخاص کی خصوصی تعظیم و تکری کے علاوہ اُن کے علمی و فکری پائے کا اِظہار کرنا ہوتا تھا۔ اِنہی القابات میں آیت اللہ بھی شامل ہے۔ بعض ماخذوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے یہ خطاب جمال الدین حسن بن یوسف بن مطہر حلّی المعروف بہ علامہ حلی (متوفی 27 دسمبر 1325 ء) کو دِیا گیا۔ ابن حجر عسقلانی انھیں ’’آیۃ فی الزکاء‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔[1] چنانچہ شرف الدین شولستانی، شیخ بہاء الدین عاملی اور محمد باقر مجلسی نے اپنے شاگردوں کو جو اِجازت نامے لکھ کر دیے، اُن میں وہ علامہ حلی کو ’’آیۃ اللہ فی العالمین‘‘ لکھتے ہیں۔[2]

چودہویں صدی ہجری میں اِس لقب کا اطلاق

ترمیم

محمد باقر مجلسی نے اپنے مشائخ میں سے شمس الدین محمد بن مکی کے لیے بھی یہ لقب اِستعمال کیا ہے۔ تاہم اِس کے بعد سے چودہویں صدی ہجری کی ابتدا تک کسی اور کے لیے یہ لقب اِستعمال نہیں کیا گیا۔ چودہویں صدی ہجری کی ابتدا میں سب سے پہلے یہ لقب مرزا حسین نوری طبرسی (متوفی 1902ء)نے سید محمد مہدی بحر العلوم کے لیے اِستعمال کیا۔ اِس کے کچھ عرصہ بعد شیخ عباس قمی (متوفی 21 جنوری 1941ء)نے یہی لقب مرتضیٰ انصاری (متوفی 18 نومبر 1864ء)، شیخ حسین نجفی اور سید محمد حسن شیرازی کے لیے اِستعمال کیا۔[3] حالانکہ اِس سے قبل تمام فقہا و علما کو حجۃ الاسلام کہا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ شیعی مؤرخین اِس لقب کا اطلاق ملا کاظم خراسانی، حاجی مرزا حسین نوری طبرسی (متوفی 1902ء)، مرزا خلیل اور شیخ عبد اللہ ماژندرانی وغیرہ پر بھی کرنے لگے۔ جبکہ اِس سے قبل اِن سب کے لیے حجۃ الاسلام کا لقب اِستعمال ہوتا تھا۔ 1922ءمیں قم میں شیخ عبد الکریم حائری کی کوششوں سے حوزہ علمیہ کی بنیاد پڑی تو اُس کی مرکزیت قائم ہوجانے کے بعد اِس درسگاہ میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دینے الے علما اور فقہا کو یہ خطاب دِیا جانے لگا۔ وہ چند فقہا یا علما جنھوں نے زیادہ مرکزیت حاصل کرلی تھی، انھیں ’’آیت اللہ العظمیٰ‘‘ قرار دِیا جانے لگا۔ بیسویں صدی عیسوی میں اِس لقب سے سب سے زیادہ شہرت آیت اللہ خمینی (متوفی 1989ء)نے پائی۔

مشہور آیت اللہ

ترمیم

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ابن حجر عسقلانی: لسان المیزان، جلد 2، صفحہ 317۔ مطبوعہ بیروت، لبنان، 1390ھ
  2. محمد باقر مجلسی: بحار الانوار، جلد 1، صفحہ 104 تا 107۔ مطبوعہ بیروت، لبنان، 1303ھ
  3. مرزا حسین نوری طبرسی : مستدرک الوسائل، جلد 2، صفحہ 397۔ جلد 3، صفحہ 222۔