ماہ پیکر کوسم سلطان (ترکی: Kösem Sultan) سلطنت عثمانیہ کی ملکہ اور والدہ سلطان تھیں۔ کوسم سلطان عثمانی تاریخ کی طاقتور و با اقتدار خواتین میں سے ایک تھیں۔ کوسم نے اقتدار کی یہ قوت تب حاصل کی جب وہ 1610ء میں عثمانی سلطان احمد اول کی محبوب زوجہ بنیں اور بعد ازاں قانونی بیوی ہونے کا درجہ حاصل ہو گیا۔ 1623ء میں وہ عثمانی سلطان مراد رابع کی تخت نشینی پر والدہ سلطان بنیں اور بعد ازاں اپنے دوسرے بیٹے سلطان ابراہیم اول کی تخت نشیں ہونے پر 1640ء میں دوبارہ اِسی عہدے پر فائز ہوئیں۔ ستمبر 1651ء تک وہ سلطنت عثمانیہ کی بااَثر ترین خواتین اور طاقتور والدہ سلطان کے طور پر جانی جاتی تھیں۔[1] عثمانی تاریخ میں سلطنت خواتین کے عہد میں کوسم سلطان تقریباً 46 سال تک سیاسی و انتظامی معاملات میں دخل انداز رہیں۔ کوسم سلطان نے تقریباً 9 عثمانی سلاطین کا عہد حکومت دیکھا۔ سترہویں صدی عیسوی کے نصفِ اول تک وہ سلطنت عثمانیہ کا طاقتور ستون اور بنیاد خیال کی جاتی تھیں۔2 ستمبر 1651ء کو ینی چری بغاوت میں انھیں قتل کر دیا گیا۔ قتل کے بعد انھیں عثمانی تاریخ میں والدہ معظمہ، والدہ مقتولہ، والدہ شہیدہ کے نام سے یاد کیا گیا۔[2] عثمانی مؤرخین انھیں کوسم والدہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

ماہ پیکر کوسم سلطان
کوسم سلطان کی اپنے فرزند کے ہمراہ تصویر
نائب السلطنت سلطنت عثمانیہ
(پہلا عہد حکومت)
10 ستمبر 1623ء18 مئی 1632ء
(8 سال 8 ماہ 8 دن)
پیشروکوئی نہیں
جانشینعائشہ سلطان
سلطنتمراد رابع
(دوسرا عہد حکومت)
8 اگست 1648ء2 ستمبر 1651ء
(3 سال 25 دن)
جانشینتورخان خدیجہ سلطان
سلطنتمحمد رابع
والدہ سلطان سلطنت عثمانیہ
10 ستمبر 1623ء2 ستمبر 1651ء
(27 سال 11 ماہ 23 دن)
پیشروحلیمہ سلطان
جانشینتورخان خدیجہ سلطان
خاصکی سلطان سلطنت عثمانیہ
(زوجہ سلطان، شاہی ملکہ)
26 نومبر 1605ء22 نومبر 1617ء
(11 سال 11 ماہ 27 دن)
پیشروصفیہ سلطان
جانشینعائشہ سلطان
شریک حیاتسلطان احمد اول
(1610ء22 نومبر 1617ء)
نسلشہزادہ محمد
مراد رابع
شہزادہ قاسم
ابراہیم اول
عائشہ سلطان
فاطمہ سلطان
گوہرخان سلطان
خانزادہ سلطان
عاتکہ سلطان
پیدائشاناستاسیا

1589ء

یونانی جزائر، تینوس، جمہوریہ وینس،
موجودہ جنوبی ایجیئن، یونان
وفات2 ستمبر 1651ء
(عمر: 62 سال)

توپ قاپی محل، استنبول، سلطنت عثمانیہ، موجودہ ترکی
تدفینسلطان احمد مسجد، ضلع فاتح، استنبول، ترکی
مذہبسنی اسلام (سابقہ راسخ العقیدہ مسیحی)

ابتدائی حالات

ترمیم

کوسم کا پیدائشی نام اناستاسیا تھا اور وہ 1589ء میں یونان کے جزائر کے ایک علاقہ یعنی جزیرہ تینوس میں پیدا ہوئیں۔ نسلاً یونانی تھیں۔[3] خیال کیا جاتا ہے کہ کوسم کے والد غالباً جزیزہ تینوس کے ایک مسیحی راہب تھے۔[4][5] مؤرخین و محققین کی اکثریت نے اِس بات سے اتفاق کیا ہے کہ کوسم کے ابتدائی حالات پردہ خفا میں ہیں جن کے متعلق کچھ بھی جاننا ممکن نہیں ہے۔[6] مؤرخ امیلیا بوترووِچ کے مطابق کوسم یتیم تھی اور جب اُسے استنبول کے سلطانی حرم میں لایا گیا تو اُس کی عمر 15 سال تھی۔[7] عثمانی بوسنیائی گورنر نے اُسے حرم سلطانی کی خاطر غلام کی شکل میں استنبول روانہ کیا جبکہ وہ محض 15 سال کی تھی۔ اگر یہ خیال درست ہو تو اِس لحاظ سے کوسم سلطانی حرم استنبول میں غالباً 1604ء میں لائی گئیں۔اسلام قبول کر لینے کے بعد اُس کا نام ماہ پیکر رکھا گیا جس کا معنی ہے: چاند کی شبیہ والی۔[8] بعد ازاں سلطان احمد اول کی جانب سے انھیں کوسم سلطان کا خطاب تفویض کیا گیا۔[9]

خاصکی سلطان

ترمیم

سلطان احمد اول کے ابتدائی عہدِ حکومت میں حرم سلطانی کی خواتین کا اقتدار زیادہ بڑھا ہوا تھا۔ سابقہ سلطان محمد ثالث کی بیوی ملکہ صفیہ سلطان جو سلطان احمد اول کی دادی بھی تھیں، سلطنت عثمانیہ پر حد درجہ قابض و طاقتور ہو چکی تھیں۔ احمد اول نے اُن کا اثر و رسوخ ختم کرنے کے لیے جنوری 1604ء میں انھیں معزول کر دیا اور مصطفیٰ اول کی معیت میں پرانے محل (اِیسکی محل، استنبول) بھجوا دیا گیا۔صفیہ سلطان کی معزولی کے بعد سلطان احمد اول کی والدہ خنداں سلطان والدہ سلطان بن گئیں اور حرم سلطانی اور سلطنت عثمانیہ کے حوالہ سے اُن کی سیاسی مشاورت قبول کرلی گئی۔ مگر خنداں سلطان بھی کم عرصہ اِس عہدہ پر فائز رہیں اور 26 نومبر 1605ء کو خنداں سلطان انتقال کرگئیں۔ سلطنت عثمانیہ کی دو با اقتدار ترین خواتین پے در پے حرم سلطانی اور سیاسی و انتظامی مشاورت سے دور ہوگئیں تو کوسم کے لیے اِقتدار میں آنے کا زریں موقع فراہم ہو گیا۔ سترہویں صدی عیسوی کے پہلے عشرہ میں (غالباً 1610ء) میں وہ سلطان احمد اول کے حرم سلطانی کی خوبصورت ترین کنیزوں میں شامل ہو چکی تھیں۔ مورخین کے مطابق وہ کنیزوں میں دوسرے یا تیسرے رتبہ پر خیال کی جاتی تھیں۔[10]

بحیثیتِ خاصکی سلطان کوسم سلطان احمد اول کی محبوب زوجہ تھیں اور اُس نے کئی 5 بیٹوں اور 4 بیٹیوں کو جنم دیا۔ اُس کا مقام و مرتبہ حرم سلطانی میں کافی بلند ہو گیا تھا اور اُس کا روزینہ ایک ہزار سلطانی آقچہ تھا۔ اولاد کی مختلف شاہی خاندانوں میں شادی بیاہ سے سیاسی تعلقات اُستوار کیے گئے۔باب عالی کے انگریزی سفیر کونتارینی (Contarini) نے اپنے روزنامچہ میں لکھا ہے کہ:

" اُس (کوسم سلطان) کی اِطلاع پر سلطان احمد اول کی جانب سے ایک خاتون کو سزا دی گئی جو کوسم سے حسد کیا کرتی تھی کیونکہ اُس کا ایک بیٹا سلطان سے تھا جس کے متعلق وہ تخت شاہی کا دعویٰ کرتی تھی" (دراصل یہ ماہ فیروز خدیجہ سلطان تھی جس کا فرزند عثمان ثانی بعد ازاں عثمانی سلطان بنا)۔[10] 1610ء کے بعد سے مختلف سالوں میں کوسم سلطان احمد اول کی مشیر خاص کے طور پر بھی اپنی سیاسی و انتظامی قوت کو بڑھاتی رہی۔ متعدد بار اُس نے اپنا سیاسی مقام خطرے سے بچایا اور متعدد نقصانات برداشت کرنا پڑے۔[10] اُس کے ایک بہترین کاموں میں سے یہ ہے کہ اُس نے مصطفیٰ اول کو سلطان احمد اول کے ہاتھوں محفوظ رکھا کیونکہ عثمانی خاندان میں یہ اُصول رائج تھا کہ سلطان تخت نشینی کے وقت اپنے بھائیوں کو قتل کروا دیتا تھا تاکہ کوئی تخت کا دعویدار باقی نہ رہے۔ مصطفیٰ اول سے متعلق یہ اقدام کوسم کی سیاسی حکمت عملی کے باعث تھا کیونکہ سلطان احمد اول کی 1610ء تک کوئی نرینہ اولاد نہ تھی اور اگر سلطان بقیدِ حیات نہ رہتا اور مصطفیٰ اول قتل کیا جاچکا ہوتا تو عثمانی خاندان میں تخت نشیں ہونے کے لیے کوئی دوسرا شہزادہ نہ تھا۔

کوسم سلطان بحیثیتِ نائب السلطنت

ترمیم

کافی باہمت خاتون تھیں سب سے پہلے مردا رابع کی نائبہ رہیں اس کے بعد سلطان ابراہیم کی نائبہ

وفات

ترمیم

کہا جاتا ہے کے کوسم سلطان کو تورخان خدیجہ سلطان نے زہر دیا تھا جس کی وجہ سے ان کی وفات ہوئی۔

اولاد

ترمیم
عثمانی شاہی شخصیت
ماقبل  خاصکی سلطان
26 نومبر 1605–22 نومبر 1617
مابعد 
ماقبل  والدہ سلطان
10 ستمبر 1623 – 3 ستمبر 1651
مابعد 

حوالہ جات

ترمیم
  1. Douglas Arthur Howard, The official History of Turkey, p. 195
  2. Necdet Sakaoğlu (2007)۔ Famous Ottoman women۔ Avea. p. 129.
  3. Finkel, Caroline (2005)۔ Osman's Dream: The Story of the Ottoman Empire, 1300–1923۔ New York: Basic Books. p. 197
  4. A.H. de Groot (1993)۔ s.v. Murad IV in The Encyclopaedia of Islam vol. VII. Brill. p. 597.
  5. Hogan, Christine (2006)۔ The Veiled Lands: A Woman's Journey Into the Heart of the Islamic World۔ Macmillan Publishers Aus. p. 74
  6. Baysun, M. Cavid, s.v. "Kösem Walide or Kösem Sultan" in The Encyclopaedia of Islam vol. V (1986)، Brill, p.272
  7. Amila Buturović; İrvin Cemil Schick (2007)۔ Women in the Ottoman Balkans: gender, culture and history۔ I.B.Tauris. p. 23.
  8. Redhouse Turkish/Ottoman-English Dictionary (14 ed.)۔ SEV Matbaacılık ve Yayıncılık A.Ş۔ 1997. p. 722.
  9. Davis, Fanny (1970)۔ The Palace of Topkapi in Istanbul۔ Scribner. pp. 227–228.
  10. ^ ا ب پ Peirce, Leslie P. (1993)، The Imperial Harem: Women and Sovereignty in the Ottoman Empire، p.105

سانچہ:عثمانی شجرہ نسب