مندرجات کا رخ کریں

صہیب رومی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
صہیب رومی
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 587ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عراق   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 1 مارچ 659ء (71–72 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ساسانی سلطنت
بازنطینی سلطنت
خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ تاجر ،  فوجی ،  امام   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان یونانی زبان ،  عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں مہمات نبوی کی فہرست ،  غزوۂ بدر   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

صہیب الرومی یا صہیب بن سنان الرومی (پیدائش: 587ء— وفات: مارچ 659ء) صحابی ہیں۔ آپ کا نام ابویحییٰ صُہَیْب بن سِنان رومی رضیَ اللہ عنہ تھا۔ آپ رضیَ اللہ عنہ کے والد یا چچّا ایران کے بادشاہ کی طرف سے اُبُلّہ (عراق میں بصرہ کے قریب شہر) پر حاکم تھے، جبکہ آپ کا گھر مَوصِل کے قریب نہر فُرات کے کنارے ایک بستی میں تھا ایک دن رُومیوں نے حملہ کر کے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا اور کئی لوگوں کے ساتھ آپ کو بھی قیدی بنا کر روم لے گئے اس وقت آپ کم عمر تھے اس طرح آپ کی پرورش روم میں ہوئی۔ قبیلۂ بنو کلب کے ایک شخص نے آپ کو رومیوں سے خریدا اور مکّے لے آیا، پھر عبداللہ بن جُدعان نے آپ کو خرید لیا یہاں تک کہ آزادی کی دولت نصیب ہو گئی، بعض روایات کے مطابق بالغ ہونے کے بعد آپ شام سے بھاگ کر مکّہ آگئے تھے۔ [1] آپ رضیَ اللہ عنہ نے ابتداً مکّہ میں رہائش رکھی اور تجارت کا پیشہ اپنایا جس سے کافی مال کمالیا تھا۔ [2] آپ اور حضرت عمّار بن یاسر رضیَ اللہ عنہُ نے ایک ساتھ بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا تھا، اس وقت 30 سے کچھ زائد خوش نصیب دامنِ اسلام سے وابستہ ہو چکے تھے۔[3] آپ ان سات افراد میں شامل ہیں جنھوں نے سب سے پہلے اپنا اسلام ظاہر کیا۔ [4] نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم نے فرمایا حوضِ کوثر پر سب سے پہلے جسے سیراب کیا جائے گا وہ صُہیب ہیں۔ [5] تم صہیب سے مَحبّت کرو جس طرح ماں اپنے بچّے سے مَحبّت کرتی ہے۔ [6] بارگاہِ رسالت سے آپ کو دو گھر اور ایک حجرہ عطا ہوئے تھے۔ [7] آپ رضیَ اللہ عنہ کی رنگت گہری سرخ تھی، قد مبارَک درمیانہ سے کچھ کم تھا، سر کے بال گھنے تھے۔ [8] آپ رضیَ اللہ عنہ سخی اور نرم دل تھے۔ [9] راہِ خدا میں اپنا مال خرچ کرتے، جہاد کرتے، لوگوں کو بَکثرت کھانا کھلاتے، نفس کی مخالَفت کرتے تھے، علم و فضل والے اور اللہ پاک اور رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم کے احکامات کو بجا لانے میں جلدی کرنے والے تھے۔ [10] آپ رضیَ اللہ عنہ تقویٰ و پرہیز گاری اور حسنِ اَخلاق کے زیور سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ خوش مزاج بھی تھے۔ ایک مرتبہ حضرت سیّدُنا صُہیب رضیَ اللہ عنہ کی آنکھ دُکھ رہی تھی اور وه کھجور كھا رہے تھے، پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم نے ارشاد فرمایا: تمھاری آنکھ دُکھ رہی ہے اور تم کھجور کھا رہے ہو؟ عرض کی: میں دوسری طرف سے کھا رہا ہوں، یہ سُن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔ [11] آپ رضیَ اللہ عنہ تمام غزوات میں رحمتِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبتِ بابرکت سے فیض پاتے رہے ،آپ فرماتے ہیں: تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم جہاں بھی تشریف لے جاتے میں وہاں ضرور حاضر ہوتا،جب بھی کوئی بیعت لیتے میں اس میں ضرور شریک ہوتا۔جذبہ ٔ جانثاری مزید فرماتے ہیں: سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم نے جو بھی لشکر جنگ کے لیے روانہ فرمایا میں اس میں شریک رہا اور جس جنگ میں مصطفےٰ کریم صلَّی اللہ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم بنفسِ نفیس شریک ہوتے، میں ساتھ ساتھ رہتا۔ اگر جانِ عالَم صلَّی اللہ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے سامنے کی طرف سے حملے کا اندیشہ ہوتا تَو سا منے آ جاتا، اگر پیچھے سے خطرہ ہوتا تَو پیچھے آجاتا، میں نے کبھی حضور نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم کو اپنے اور دشمنوں کے درمیان تنہا نہیں چھوڑا۔ [12] آپ فتحِ شام کے موقَع پر امیرُ المؤمنین حضرت سیّدُنا عمرفاروق رضیَ اللہ عنہ کے ساتھ شام تشریف لائے تھے۔ [13] مسجدِ نَبَوی میں امامت کی سعادت جب حضرت سیّدُنا عمر فاروق رضیَ اللہ عنہ قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئے تو انھوں نے حضرت صُہیب رومی۔کو نمازیں پڑھا نے کا حکم دیا آپ رضیَ اللہ عنہ تین دن تک حضرت عمر فاروق رضیَ اللہ عنہ کی جگہ نمازیں پڑھا تے رہے یہاں تک کہ مسلمانوں نے حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضیَ اللہ عنہ کو خلافت کی اہم ذمّہ داری سونپ دی۔ [14] حضرت عمر فاروق رضیَ اللہ عنہ کو قبر مبارَک میں اتارنے کی سعادت پانے والے چار صحابۂ کرام میں آپ بھی شامل تھے۔ [15] آپ رضیَ اللہ عنہ کی وفات 38 ہجری ماہِ شوّال میں ہوا، نمازِ جنازہ حضرت سیّدُنا سعد بن ابی وقّاص رضیَ اللہ عنہ نے پڑھائی جبکہ تدفین جنّتُ البقیع میں ہوئی، بَوقتِ انتقال آپ کی عُمْر مختلف روایات کے مطابق 72 یا 74 سال تھی۔ [16] [17] [18]

نام و نسب

[ترمیم]

ان کا نام عبد الملک اور صہیب، ابویحیی کنیت، والد کا نام سنان اور والدہ کانام سلمی بنت قعید تھا،پورا سلسلۂ نسب یہ ہے۔ صہیب بن سنان بن مالک بن عبد عمرو بن عقیل بن عامر بن جندلہ بن جذیمہ بن کعب بن سعد بن اسلم بن اوس مناۃ بن النمری بن قاسط بن ہنب بن افصی بن دعمی بن جدیلہ بن اسد بن ربیعہ بن نزار الربعی النمری۔[19] [20]

ابتدائی حالات

[ترمیم]

صہیب کا اصلی وطن ایک قریہ تھا جو باختلافِ روایات موصل کے قریب،لب دجلہ یا الجزیرہ میں واقع تھا،ان کے والد اورچچا کسریٰ کی طرف سے اُبلہ کے عامل تھے، انھوں نے ابھی دنیا کی صرف چند بہاریں دیکھی تھیں کہ رومی فوجوں نے اُبلہ پر چڑھائی کی اور دوسرے مال واسباب کے ساتھ اس نونہال کو بھی ساتھ لے گئے، سنان کے چمن زار پر اس گلِ سرسبد کے فقدان سے خزاں آگئی، ان کی بہن امیمہ اور چچا لبید نے ان کی تلاش و جستجو میں دنیا کی خاک چھان ڈالی، تمام مجامع، میلوں اور موسمی بازاروں کا جائزہ لیا؛ لیکن اس یوسفِ گم گشتہ کا کہیں سراغ نہ لگا۔[21] وہ رومیوں ہی میں پرورش پاکر جوان ہوئے،بنی کلب نے ان کو خرید کر مکہ پہنچایا اور ان سے عبد اللہ بن جدعان نے لے کر آزاد کر دیا، لیکن ایک دوسری روایت ہے کہ وہ خود بھاگ کر آئے تھے اور عبد اللہ سے صرف حلیفانہ تعلق تھا، غرض وہ مکہ میں اس کی زندگی تک اس کے ساتھ رہے ۔ مکہ معظمہ لاکر انھوں نے ہی آپ کو آزاد کیا،آپ اور عمار ابن یاسر ایک ہی دن ایمان لائے جب کہ حضور انور دار ارقم میں پناہ گزین تھے۔ آپ نے کفار مکہ کے ہاتھوں اسلام لاکر بہت مصیبتیں اٹھائیں،آپ کے متعلق یہ آیت کریمہ نازل ہوئی"وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشْرِیۡ نَفْسَہُ"الخ۔ نوے سال عمر ہوئی، آپ کے فضائل بے شمار ہیں بدر وغیرہ تمام غزوات میں شریک رہے۔[22] [17][23]

اسلام

[ترمیم]

مکہ مکرمہ میں اسلام کا غلغلہ بلند ہوا تو تفتیش و تحقیق کے خیال سے آستانہ نبوت پر حاضر ہوئے،اتفاق سے عمار بن یاسر بھی اسی خیال سے آ رہے تھے، انھوں نے ان کو دیکھ کر پوچھا، تم کس ارادہ سے آئے ہو؟ بولے پہلے تم اپنا مقصد ظاہر کرو، انھوں نے کہا میں محمد سے مل کر ان کی گفتگو سننا چاہتا ہوں، بولے میرا بھی یہی مقصد ہے، غرض دونوں ایک ساتھ حاضرِ خدمت ہوکر مشرف باسلام ہوئے۔[24] صہیب پہلے رومی تھے جنھوں نے صدائے توحید کو لبیک کہا، رسول اللہ فرمایا کرتے تھے کہ صہیب روم کا پہلا پھل ہے،آپ اس وقت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان میں پناہ گزین تھے اور تیس سے زیادہ صحابہ کرام اس دائرہ میں داخل ہو چکے تھے، جن میں سے اکثروں نے مشرکین کے خوف سے اس کو ظاہر نہیں کیا تھا۔

ابتلا و استقامت

[ترمیم]

حضرت صہیب ؓ گو غریب الوطن تھے اوران کفارِ مکہ میں ان کا کوئی حامی ومعاون نہ تھا، تاہم غیرت ایمان نے چھپ کر رہنا پسند نہ کیا، انھوں نے ابتدا ہی میں اپنے تبدیل مذہب کا حال ظاہر کر دیا اور راہِ خدا میں گونا گوں مصائب ومظالم برداشت کیے؛ لیکن استقامت صبر اور تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا۔ [25] [26]

ہجرت

[ترمیم]

حضرت صہیب ؓ سب سے آخری مہاجر تھے، انھوں نے رختِ سفر درست کرکے ہجرت کا قصد فرمایا ، تو مشرکینِ قریش نہایت سختی کے ساتھ سدِّ راہ ہوئے اور بولے تم ہمارے یہاں مفلس و محتاج آئے تھے، مکہ میں رہ کر دولت و ثروت جمع کی اور اب یہ تمام سرمایہ اپنے ساتھ لیے جاتے ہو، خدا کی قسم ایسا نہ ہوگا ، حضرت صہیب ؓ نے اپنا ترکش دکھا کر کہا اے گروہِ قریش! تم جانتے ہو کہ میں تم لوگوں میں سے سب سے زیادہ صحیح نشانہ باز ہوں،خدا کی قسم جب تک اس میں ایک بھی تیر ہے تم میرے قریب نہیں آ سکتے، اس کے بعد پھر اپنی تلوار سے مقابلہ کروں گا،ہاں اگر مال ودولت چاہتے ہو تو کیا اس کو لے کر میرا راستہ چھوڑ دو گے؟ مشرکین نے اس پر رضا مندی ظاہر کی اور حضرت صہیب ؓ اپنے مال و منال کے عوض متاعِ ایمان کا سودا خرید کر مدینہ پہنچے ۔ [27]

حضرت خیرالانام قباء میں حضرت کلثوم بن ہدم ؓ کے مہمان تھے، حضرت ابوبکر ؓ و عمرؓ بھی حاضرِ خدمت تھے، کھجوروں کا نقل ہورہا تھا کہ حضرت صہیب ؓ پہنچے اور بھوک کی شدت سے بیتاب ہوکر اس پر ٹوٹ پڑے، چونکہ سفر میں ان کی ایک آنکھ آشوب کرآئی تھی،اس لیے حضرت عمرؓ نے تعجب سے کہا یا رسول اللہ ! آپ صہیب ؓ کو ملاحظہ نہیں فرماتے کہ آشوبِ چشم کے باوجود کھجوریں کھا رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا، صہیب ؓ تمھاری آنکھ جوش کر آئی ہے اور تم کھجوریں کھاتے ہو؟ مزاج نہایت بذلہ سنج تھا، بولے، میں صرف اپنی ایک تندرست آنکھ سے کھاتا ہوں، اس حاضر جوابی سے رسول اللہ بے اختیار ہنس پڑے۔ [28] جب بھوک کی شدت کسی قدر دفع ہوئی تو شکوہ شکایت کا دفتر کھلا، حضرت ابوبکر ؓصدیق سے کہنے لگے کہ آپ نے باوجود وعدہ مجھے شریک سفر نہ فرمایا، حضرت رسالتِ مآب سے عرض کیا یا رسول اللہ  ! آپ نے بھی خیال نہ فرمایا، قریش نے مجھے تنہا دیکھ کر روک رکھا، بالآخر تمام دولت وثروت کے عوض اپنی جان خرید کر حاضر ہوا ،[29]ارشاد ہوا، ابویحیی تمھاری تجارت منفعت رہی اس کے بعد ہی قرآن پاک نے اس عظیم الشان قربانی کی ان الفاظ میں داددی ۔ [30] وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ [31] لوگوں میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو خدا کی رضا جوئی کے لیے اپنی جانیں بیچ دیتے ہیں۔ حضرت صہیب رومی ؓ مدینہ میں حضرت سعد بن خثیمہ ؓ کے مہمان ہوئے اور حضرت حارث بن الصمہ انصاری ؓ سے مواخات ہوئی۔ [32] [33] .[34]

غزوات

[ترمیم]

تیر اندازی میں کمال رکھتے تھے، غزوۂ بدر ،غزوہ اُحد، غزوہ خندق اور تمام دوسرے معرکوں میں رسول اللہ کے ہمرکاب رہے، عالمِ پیری میں وہ لوگوں کو جمع کرکے نہایت لطف کے ساتھ اپنے جنگی کارناموں کی دلچسپ داستان سنایا کرتے تھے۔

سہ روزہ خلافت

[ترمیم]

حضرت عمرؓ بن خطاب ان سے نہایت حسنِ ظن رکھتے تھے اور خاص لطف ومحبت کے ساتھ پیش آتے تھے، انھوں نے وفات کے وقت وصیت فرمائی کہ حضرت صہیب رومی ؓ ہی ان کے جنازہ کی نماز پڑھائیں اور اہلِ شوریٰ جب تک مسئلہ خلافت کا فیصلہ نہ کریں، وہ امامت کا فرض انجام دیں، چنانچہ انھوں نے تین دن تک نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ اس فرض کو انجام دیا۔ [35] [36]

وفات

[ترمیم]

38ھ میں پیمانہ حیات لبریز ہو گیا، 72 برس کی عمر میں وفات پائی اور بقیع کے گورِ غریباں میں مدفون ہوئے۔[37][38] [39]

اخلاق

[ترمیم]

حضرت صہیب ؓ سرچشمہ اخلاق سے بہت زیادہ مستفیض ہوئے تھے، فرماتے ہیں کہ نزولِ وحی سے پہلے ہی مجھے رسول اللہ کی مصاحبت کا فخر حاصل تھا،[40] اس بنا پر ان میں تمام اوصاف حسنہ مجتمع ہو گئے تھے، حسن خلق ، فضل وکمال کے ساتھ حاضر جوابی بذلہ سنجی اور لطیفہ گوئی نے ان کی صحبت کو نہایت پُر لطف بنادیا تھا۔ [41] مہمان نوازی ،سخاوت وغرباء پروری میں نہایت کشادہ دست تھے، یہاں تک کہ لوگوں کو اسراف کا دھوکا ہوتا تھا،ایک دفعہ حضرت عمرؓ بن خطاب نے ان سے فرمایا، صہیب رومی ؓ تمھاری چند باتیں مجھے ناپسند ہیں، اول یہ کہ تم نے ابو یحیی اپنی کنیت قراردی، جو ایک پیغمبر کا نام ہے اور اس نام کی تمھاری کوئی اولاد نہیں ،دوسرے اسراف کرتے ہو اور تیسرے یہ کہ اپنے کو عرب کہتے ہو، بولے، یہ کنیت میری نہیں ؛بلکہ رسول اللہ کی تجویز کردہ ہے، رہا اسراف تو اس میں میرا اساس عمل رسول اللہ کا یہ فرمان ہے۔ خیارکم من اطعم الطعام وردالسلام یعنی تم لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو کھانا کھلائے اور سلام کا جواب دے۔ امرِ سوم کا جواب یہ ہے کہ میں درحقیقت عرب ہوں چونکہ رومیوں نے بچپن ہی میں مجھے غلام بناکر اہل و عیال سے جدا کر دیا اس لیے میں اپنے خاندان اور قوم کو بھول گیا۔ [42] [43]

حلیہ

[ترمیم]

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قد میانہ بلکہ ایک حد تک کوتاہ ، چہرہ نہایت سرخ، سر کے بال گھنے تھے، زمانہ پیری میں مہندی کا خضاب لگاتے تھے، زبان میں لکنت (ہکلاہٹ) تھی ایک دفعہ وہ اپنے غلام یحنس کو باغ میں یاناس یاناس کہہ کر پکار رہے تھے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سنا تو تعجب سے فرمایا ان کو کیا ہو گیا ہے کہ لوگوں کو پکار رہے ہیں؟ (ناس عربی میں لوگوں کو کہتے ہیں۔) ام سلمہ نے عرض کی کہ وہ لوگوں کو کب پکارتے ہیں وہ اپنے غلام یحنس کو بلاتے ہیں لیکن لکنت کی وجہ سے اس نام کو ادا نہیں کر سکتے۔[44] [45]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. (طبقات ابنِ سعد،ج 3،ص 170)
  2. (الاعلام للزرکلی،ج 3،ص210)
  3. (طبقاتِ ابنِ سعد،ج 3،ص171)
  4. (مصنف ابنِ ابی شیبہ،ج 7،ص 537)
  5. (مسندالفردوس،ج1،ص36،حدیث: 57)
  6. (مستدرک،ج 3،ص494، حدیث: 5762، 5763)
  7. (بخاری،ج 2،ص 183، حدیث: 2624)
  8. (تاریخ ابنِ عساکر،ج24،ص215)
  9. (سیراعلام النبلاء،ج 3،ص361)
  10. (حلیۃ الاولیاء،ج 1،ص204)
  11. (ابن ماجہ،ج 4،ص91، حدیث:3443)
  12. (حلیۃالاولیاء،ج1،ص204 ،رقم:497)
  13. (تاریخ ابنِ عساکر،ج 24،ص210)
  14. (ایضاً،ج 24،ص243)
  15. (طبقات ابنِ سعد،ج 3 ،ص281)
  16. (تاریخ ابنِ عساکر،ج 24 ،ص244 تا 246 ملتقطاً)
  17. ^ ا ب سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» صهيب بن سنان آرکائیو شدہ 2017-01-13 بذریعہ وے بیک مشین
  18. الإصابة في تمييز الصحابة - صهيب بن سنان (3) آرکائیو شدہ 2017-01-13 بذریعہ وے بیک مشین
  19. اسدالغابہ :3/30
  20. تهذيب الكمال للمزي» صهيب بن سنان بن خالد بن عمرو آرکائیو شدہ 2017-01-13 بذریعہ وے بیک مشین
  21. اصابہ جلد 3 تذکرہ صہیب بن سنان
  22. مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح مفتی احمد یار خان نعیمی جلد4صفحہ535نعیمی کتب خانہ گجرات
  23. جمهرة أنساب العرب ص300
  24. اسد الغابہ جلد 4 تذکرہ عمار بن یاسر
  25. (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :162)
  26. الطبقات الكبرى لابن سعد - صُهَيْبُ بْنُ سِنَانِ (1) آرکائیو شدہ 2017-09-08 بذریعہ وے بیک مشین
  27. (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث:162)
  28. (مستدرک حاکم :3/399)
  29. (طبقات ابن سعد قسم اول جز3:163)
  30. (ایضا مستدرک حاکم:3/398)
  31. (البقرۃ:207)
  32. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث:162)
  33. الإصابة في تمييز الصحابة - صهيب بن سنان (1) آرکائیو شدہ 2017-03-20 بذریعہ وے بیک مشین
  34. الطبقات الكبرى لابن سعد - صُهَيْبُ بْنُ سِنَانِ (2) آرکائیو شدہ 2017-09-08 بذریعہ وے بیک مشین
  35. (اسد الغابہ:3/33)
  36. أسد الغابة في معرفة الصحابة - صهيب بن سنان آرکائیو شدہ 2017-01-13 بذریعہ وے بیک مشین
  37. اسد الغابہ :3/33
  38. اصحاب بدر،صفحہ 96،قاضی محمد سلیمان منصور پوری، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور
  39. الإصابة في تمييز الصحابة - صهيب بن سنان (2) آرکائیو شدہ 2017-01-13 بذریعہ وے بیک مشین
  40. (استیعاب تذکرہ صہیب ؓ)
  41. (اسد الغابہ :3/32 )
  42. (مسند احمد بن حنبل :6/16)
  43. الطبقات الكبرى لابن سعد - صُهَيْبُ بْنُ سِنَانِ (3) آرکائیو شدہ 2017-09-08 بذریعہ وے بیک مشین
  44. اسد الغابہ، ج 3، ص 32
  45. الطبقات الكبرى لابن سعد - صُهَيْبُ بْنُ سِنَانِ (4) آرکائیو شدہ 2017-09-08 بذریعہ وے بیک مشین