کعب احبار
ابو اسحاق کعب بن بن ماتع الحمیری الاحبار | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 6ویں صدی یمن |
وفات | ہجری 32 (652/653) حمص |
شہریت | خلافت راشدہ |
عملی زندگی | |
پیشہ | الٰہیات دان ، مفسر قرآن ، ربی ، مشیر |
شعبۂ عمل | تفسیر قرآن ، اسرائیلیات |
درستی - ترمیم |
کعب احبار (عربی: كعب الأحبار) جن کا اصل نام ابو اسحاق كعب بن ماتع الحمیری تھا جبکہ احبار ان کو ربی ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ کعب الاحبار یمن کے ممتاز ربی تھے جنھوں نے یہودیت کو ترک کر کے اسلام قبول کر لیا تھا۔[1] ان کا شمار تابعین میں کیا جاتا ہے اور انھوں نے متعدد اسرائیلی روایتوں کو بیان کیا۔[2] وہ خلیفہ عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان کے دورِ خلافت میں ایک با اثر شخصیت تھے۔ اہل سنت کے مطابق کعب نے کم حدیثیں روایت کیں، لوگ ان سے بنی اسرائیل کی معلومات حاصل کرتے تھے، کیونکہ ان کو یہودی تاریخ پہ کمال حاصل تھا۔ کعب احبار تابعین کے طبقہ اولیٰ میں سے ہیں، انھیں کعب حبر بھی کہا جاتا ہے۔
نام و نسب
[ترمیم]کعب نام، ابو اسحاق کنیت، نسباً یمن کے مشہور حمیری خاندان کی شاخ آل ذی روعین سے تھے، نسب نامہ یہ ہے، کعب بن مانع بن ہینوع بن قیس بن معن بن جشم ابن وائل بن عوف بن جمہر بن عوف بن زہیر بن ایمن بن حمیر بن سبا بن حمیری۔
شخصیت
[ترمیم]کعب احبار ابن مانع حمیری ہیں۔ یہود کے سرکردہ اہل علم میں سے تھے اور کتب یہود کے بارے میں سب سے وسیع اطلاع رکھتے تھے۔ مخضرمین میں سے تھے جنھوں نے زمانۂ جاہلیت اور زمانۂ اسلام دونوں پائے۔ یمن میں پیدا ہوئے اور وہیں رہائش پزیر رہے، تا آنکہ وہاں سے ہجرت فرمائی دور صدیق اکبر میں اسلام لا ئے اور سن 12ھ عمر فاروق دور میں مدینہ میں آئے۔ ابن سعدنے اہل شام کے تابعین میں آپ کو طبقۂ اولیٰ میں ذکر کیا ہے اور مزید کہتے ہیں کہ :’’آپ دین یہود پر تھے، پھر اسلام لائے اور مدینہ منورہ ہجرت فرمائی، شام کی طرف روانہ ہو گئے اور تاحیات حمص ہی میں رہے۔[3]
اسلام اور ورودِ مدینہ
[ترمیم]کعب مشہور تابعی ہیں، قبولِ اسلام سے پہلے یہود کے جید علما میں شمار کیے جاتے تھے، عہدِ رسالت میں موجود تھے؛ لیکن صحیح روایت کے مطابق اس عہد بابرکت میں وہ اسلام کی سعادت حاصل نہ کرسکے اور ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی زمانہ میں مشرف باسلام ہو گئے تھے، کعب کا بیان ہے کہ علی رضی اللہ عنہ جب یمن آئے توان کی خدمت میں حاضر ہوکر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف پوچھے توانھوں نے بتایا تومیں مسکرایا، علی رضی اللہ عنہ نے مسکرانے کا سبب پوچھا، میں نے کہا: ہمارے یہاں (نبی آخرالزماں کے) جوعلامات بتائے گئے ہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرصادق آتے ہیں؛ اسی لیے مجھے ہنسی آگئی، اس سوال وجواب کے بعد میں مسلمان ہو گیا اور لوگوں کواسلام کی دعوت دینے لگا؛ لیکن قیام یمن ہی میں رہا، عمررضی اللہ عنہ کے عہد میں ہجرت کرکے مدینہ گیا، کاش میں نے اس سے پہلے ہجرت کی ہوتی[4] (کعب کے حالات، تابعین سے نقل کیے گئے ہیں، آخر میں اور کہیں کہیں درمیان میں کچھ اضافہ وترمیم ہے) ایک روایت یہ ہے کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اسلام لائے۔ [5] لیکن یہ دونوں روایتیں کمزور ہیں، اس باب میں صحیح ترین روایت وہ ہے جوطبقاتِ ابن سعد میں کعب کے حلیف حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس سے خود کعب کی زبان سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں ان کا اسلام لانا ثابت ہوتا ہے، سعید بن مسیب کا بیان ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کعب کے اسلام لانے کے بعد ان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قبولِ اسلام میں کیا چیز مانع تھی کہ عمررضی اللہ عنہ کے زمانے میں اسلام لائے، جواب دیا کہ میرے والد نے مجھ کوتوراۃ سے ایک تحریر نقل کرکے دی تھی اور ہدایت کی تھی کہ اسی پرعمل کرنا، دوسرے اپنی تمام مذہبی کتابوں پرمہر لگاکرمجھ سے حق ابوت کا واسطہ دلاکر وعدہ کیا تھا کہ اس کونہ توڑنا، تومیں نے اس کونہیں توڑا اور والد جوتحریر دے گئے تھے اس کے مطابق میں عمل کرتا رہا، جب اسلام کی اشاعت اور اس کا غلبہ ہونے لگا اور کسی کا خوف باقی نہیں رہ گیا تواس وقت میں نے دل میں خیال کیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ والد نے مجھ سے کچھ علم چھپایا ہے، مجھے ان کتابوں کوکھول کردیکھنا چاہیے؛ چنانچہ میں نے مہرتوڑ کرکتابیں پڑھیں تومجھ کونظر آیا کہ ان میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اُن کی اُمت کے اوصاف لکھے ہیں، اس وقت مجھ پراصل حقیقت روشن ہوئی اور آکرمسلمان ہو گیا [6] قبولِ اسلام کے بعد وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے حلیف بن گئے تھے۔
شام کا قیام
[ترمیم]کعب کا آبائی مذہب یہودیت تھا، اس لیے پہلے سے ان کوارضِ شام کے ساتھ دلی لگاؤ تھا، مسلمانو کے نزدیک بھی یہ سرزمین مقدس ومحترم ہے، اس لیے چند دن مدینہ میں قیام کرنے کے بعد کعب شام چلے گئے اور حمص میں جاکر سکونت اختیار کرلی۔ [7]
فضل وکمال
[ترمیم]کعب یہود کے بڑے ممتاز اور نامور علما میں ہے، یہودی مذہب کے متعلق ان کی معلومات نہایت وسیع تھیں، حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ وہ علم کا ظرف اور اہلِ کتاب کے علمائے کبار میں تھے [8] امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ان کے وفور علم اور توثیق پرسب کا اتفاق ہے، وہ اپنی وسعتِ علم کی وجہ سے کعب احبار اور کعب البر کہے جاتے تھے، ان کے مناقب بکثرت ہیں اور ان کے اقوال وحکم بہت مشہور ہیں [9] اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ان کی وسعتِ نظر کے معترف تھے، ابودرداء رضی اللہ عنہ انصاری کا حمص میں بڑا ساتھ رہا تھا، فرماتے تھے کہ ابن حمیریہ کے پاس بڑا علم ہے [10] امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ ابودرداء رضی اللہ عنہ حکماء میں ہیں اور کعب علما میں، ان کے پاس سمندر جیسا اتھاہ علم تھا۔ [11] چونکہ ایک مذہب کے وہ ایک بڑے عالم تھے، اس لیے اسلامی علوم کے ساتھ بھی انھیں خاص مناسبت ہو گئی تھی، مدینہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے انھوں نے کتاب وسنت کی تعلیم حاصل کی تھی اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے ان سے اہلِ کتاب کے علوم سیکھے تھے۔ [12] کتاب وسنت میں انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت صہیب رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے استفادہ کیا تھا اور اسرائیلیات میں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور تابعین میں حضرت مالک بن ابی عامر رحمہ اللہ، حضرت اصبحی رحمہ اللہ، حضرت عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ، حضرت عبد اللہ بن رباح انصاری رحمہ اللہ، حضرت عبد اللہ بن حمزہ سلولی رحمہ اللہ، حضرت ابورافع صائغ رحمہ اللہ، حضرت عبد الرحمن بن شعیب رحمہ اللہ اور ایک کثیر جماعت ان سے فیض یاب ہوئی تھی۔ [13]
علم اور علما اور زوالِ علم
[ترمیم]ایک مرتبہ عبد اللہ بن سلام نے ان سے پوچھا کہ کعب! علما کون لوگ ہیں، جواب دیا جوعلم جانتے ہیں، ابن سلام نے پوچھا کونسی شے علما کے دلوں سے علم کوزائل کر دے گی، فرمایا: طمع، حرص اور لوگوں کے سامنے اپنی حاجت پیش کرنا، عبد اللہ ابن سلام نے کہا: تم نے سچ کہا۔ [14]
مواعظ
[ترمیم]شام کے زمانۂ قیام میں ان کا مشغلہ زیادہ تراسرائیلی قصص کے مواعظ تھے، ایک مرتبہ عوف بن مالک نے دورانِ وعظ میں ان سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ امیر، مامور اور مکلف کے علاوہ لوگوں کے سامنے اور کسی کومواعظ وقصص نہ بیان کرنے چاہئیں یہ سن کرکعب نے وعظ گوئی چھوڑ دی؛ لیکن پھرامیر کے حکم سے دوبارہ وہ سلسلہ جاری کر دیا۔ [15]
وفات
[ترمیم]عثمان غنی کے عہد خلافت سنہ 32ھ میں شام میں وفات پائی۔ وفات کے وقت 104 سال کے تھے۔[16]
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب پ ت ٹ الاسلام ویب گاہ۔ اسلامی دائرۃ المعارف۔ اخذ کردہ بتاریخ 19 جولائی 2017ء
- ↑ ::: 'علوم القرآن #3 - تفسیر کی تاریخ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ archive.muslimuzbekistan.com (Error: unknown archive URL) مسلم ازبکستان۔ اخذ کردہ بتاریخ 19 جولائی 2017ء
- ↑ الاعلام خیر الدین زرکلی
- ↑ (اصابہ:5/322)
- ↑ (اصابہ:5/322)
- ↑ (ابن سعد:7/156)
- ↑ (ابن سعد:7/156)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/45)
- ↑ (تہذیب الاسماء:1/69)
- ↑ (ابن سعد:2/156)
- ↑ (اصابہ:5/333)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/45)
- ↑ (تہذیب التہذیب:5/428)
- ↑ (اصابہ:5/224)
- ↑ (اصابہ:5/323)
- ↑ ابن سعد:7/156