مندرجات کا رخ کریں

سرمایہ داری نظام

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سرمایہ دارانہ نظام معاشی و معاشرتی نظام ہے جس میں سرمایہ بطور عاملِ پیدائش نجی شعبہ کے اختیار میں ہوتا ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں کرنسی چھاپنے کا اختیار حکومت کی بجائے کسی پرائیوٹ بینک کے اختیار میں ہوتا ہے۔ اشتراکی نظام کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام میں نجی شعبہ کی ترقی معکوس نہیں ہوتی بلکہ سرمایہ داروں کی ملکیت میں سرمایہ کا ارتکاز ہوتا ہے اور امیر امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس میں منڈی آزاد ہوتی ہے اس لیے اسے آزاد منڈی کا نظام بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ آج کل کہیں بھی منڈی مکمل طور پر آزاد نہیں ہوتی مگر نظریاتی طور پر ایک سرمایہ دارانہ نظام میں منڈی مکمل طور پر آزاد ہوگی۔ جملہ حقوق، منافع خوری اور نجی ملکیت اس نظام کی وہ خصوصیات ہیں جس سے سرمایہ دارانہ نظام کے مخالفین کے مطابق غریبوں کا خون چوسا جاتا ہے۔ جدید دانشوروں کے مطابق آج سرمایہ دارانہ نظام اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے اور ایک متبادل نظام کی آوازیں شدت سے اٹھنا شروع ہو گئیں ہیں۔
مختصراًسرمایہ دارانہ نظام یہ کہتا ہے کہ ذاتی منافع کے لیے اور ذاتی دولت و جائیداداور پیداواری وسائل رکھنے میں ہر شخص مکمل طور پر آزاد ہے، حکومت کی طرف سے اس پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم دنیا میں سو فیصد (%100)سرمایہ دارانہ نظام کسی بھی جگہ ممکن نہیں، کیونکہ حکومت کو کسی نہ کسی طرح لوگوں کے کاروبار میں مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، اٹلی وغیرہ میں سرمایہ دارانہ نظام ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ایڈم سِمتھ(1723ء - 1790ء) (Adam Smith) نے رکھی جو ایک برطانوی فلسفی اور ماہر اقتصادیات تھا۔[1][2]

بنیادی ستون

[ترمیم]

مغرب کا پورا نظام چاہے وہ سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism) کی شکل میں ہو ،اشتراکیت (Socialism) کی شکل میں ہو یا مخلوط معیشت (Mixed Economy) کی شکل میں ہو، مندرجہ ذیل ستونوں پر قائم ہیں۔

سود (ربوٰ)

[ترمیم]

سرمایہ دارانہ نظام کا سارا نظام سود پر مبنی ہیں۔ سود ہی کے ذریعے مغربی طاقتیں پورے پورے ممالک کو تباہ کر دیتی ہیں۔ سودی نظام جب ایک معاشرے میں کئی دہائیوں تک چلے تو اس کے بُرے اثرات نمایاں ہو جاتے ہیں۔ غریب اور امیر کے درمیان فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ غریب، غریب تر ہو جاتا ہے جبکہ امیر، امیر تر ہو جاتا ہے۔ معاشرے کی ساری دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جاتی ہے اور ملک کی معیشت پر چند افراد کا قبضہ ہو جاتا ہے۔[3][4]

کاغذی کرنسی

[ترمیم]

سرمایہ دارانہ نظام کا دوسرا بڑا ستون کاغذی کرنسی ہے۔ انھوں نے دنیا سے سونا اکٹھا کرکے ان کے ہاتھوں میں کاغذی کرنسی پکڑا دی اور اس نئے دَور میں اب کاغذی کرنسی کی جگہ پلاسٹک سے بنی کرنسی نے لی ہے۔ جیسے کریڈٹ کارڈ، ماسٹر کارڈ وغیرہ یعنی اب زیادہ نوٹ چھاپنے کی بھی ضرورت نہیں رہی، صرف کمپیوٹر میں انٹری کروانے سے پیسے وجود میں آجاتے ہیں۔ اگر امریکا کا مرکزی بینک (FED) چاہے تو وہ ایک سیکنڈ میں ایک ہزار ارب ڈالر کی دولت پیدا کر سکتا ہے۔ اور قانون انھوں نے یہ بنایا ہے کہ ہر ملک جب دوسر ے سے تجارت کرے گا تو ڈالر میں کرے گا تو وہ دنیا کے ہر ملک سے ہر چیز خرید سکتے ہیں بعوضِ کمپیوٹر میں دیے گئے برقی رو(Digital Pulse) کے ذریعے سے۔ مغربی نظامِ معیشت میں کرنسی ہر چیز کی ہو سکتی ہے مثلاً کاغذ، پلاسٹک، برقی رو(Digital Pulse)۔ تو مغربی نظامِ معیشت نے ہم سے سونا اور چاندی چھین کر ہمیں کاغذی رسید یں وغیرہ پکڑا دی۔[5][6][7][8][9][10][11]

کرنسی چھاپنے والا شخص یا ادارہ ایک عجیب و غریب صلاحیت کا مالک بن جاتا ہے۔ وہ مارکیٹ سے کوئی بھی چیز خرید کر اسے آدھی قیمت میں فروخت کر سکتا ہے کیونکہ وہ اپنے نقصان کو نوٹ چھاپ کر پورا کر سکتا ہے۔ دنیا میں کوئی اور یہ کام نہیں کر سکتا۔ اس طرح وہ مارکیٹ میں کسی بھی چیز کی قیمت گرا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تیسری دنیا کی پیداوار کی قیمت گرتی جا رہی ہے جبکہ کیپیٹلسٹ ممالک کی پیداوار (مثلاً جہاز، اسلحہ، گاڑیاں) مہنگی سے مہنگی تر ہوتی جا رہی ہیں۔ جب تک کرنسی سونے چاندی کے سکوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی تب تک یہ ممکن نہ تھا۔

اثاثہ جات کے تحفظ کا جزوی نظام

[ترمیم]

اثاثہ جات کے تحفظ کا جزوی نظام (Fractional Reserve System) مغربی معاشی نظام کا تیسرا ستون ہیں۔ یعنی اگر ایک بینک کے پاس سو روپے ہو تو وہ ہزار روپے کے قرضے جاری کر سکتا ہے۔ یعنی بینک اپنی اصلی اثاثوں سے دس گنا زیادہ قرض چیک وغیرہ کی شکل میں دے سکتا ہے۔ مثلاًایک بینک کے پاس ایک لاکھ روپے ہوں تو وہ بینک دس لاکھ روپے کا قرضے جاری کر سکتا ہے۔ اس لیے اگر اس بینک نے آٹھ فیصد کے سود سے ایک لاکھ روپے لوگوں کو قرض دیے ہیں تو بینک کی سالانہ آمدنی آٹھ فیصد یعنی آٹھ ہزار روپے نہیں ہوگی بلکہ (%80) اسی فیصد یعنی اسی ہزار روپے ہوگی۔ یعنی بینک ظاہری سود کی آمدنی سے دس گنّا ذیاده کماتا ہے۔ مغربی بینکی نظام میں یہ ایک جائز کام ہے لیکن اسلامی معاشی نظام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسی لیے اس پر اسلامی معاشی نظام میں مکمل پابندی ہوگی۔ "[12][13]

بینک

[ترمیم]

سرمایہ دارانہ نظام کی اصل طاقت بینک ہے۔ بینک ہی کے ذریعے وہ سود، کاغذی کرنسی اور فریکشنل ریزور سسٹم کا اطلاق کرتے ہیں۔ اور بینک کی بنیاد سود پرقائم ہے۔ یعنی بینک لوگوں سے کم شرح سودپرقرضے لیتا ہیں اور دوسروں کو ‍زیادہ شرح سود پر قرضے دیتا ہیں۔ درمیان میں جوشرح سود کا فرق ہے وہ بینک کا منافع ہوتاہے۔ لہٰذا سود کے بغیر بینک کا وجود محال ہے۔ اور ملک میں کرنسی پر اجارہ داری مرکزی بینک کی ہوتی ہے۔ یعنی کرنسی (پیسے) صرف مرکزی بینک چھاپتا ہے۔ اور ملکی خزانہ مرکزی بینک کے پاس ہوتا ہے۔ لہٰذا سرمایہ دارانہ نظام میں حکومت کا سب سے طاقت ور وزیر وہ ہوتا ہے جس کے کنٹرول میں پیسے چھاپنے کی مشین ہوتی ہے یعنی وزیر خزانہ۔ لہٰذا مغربی نظام کا سب سے مرکزی اور مضبوط ادارہ بینک ہے۔ لہٰذا بینک کو ختم کیے بغیر سرمایہ دارانہ کو ختم کرنا محض سراب ہے۔ اسلامی نظام کے صرف دو اداروں کی بحالی سے بینک کی وجود کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی، وہ ہے وادیعہ اور بیت المال۔ جس کی وضاحت آگے آئی گی۔[14][15][16][17][18]

محصول لگانا (Tax)

[ترمیم]

سرمایہ دارانہ نظام کا ایک اہم پہلو محصول لگانا (Tax) ہے۔ اس نظام میں ہر شخص کی آمدنی سے محصول وصول کیا جاتا ہے چاہے وہ غریب ہو یا مالدار۔ بازار میں بکنے والی ہر شے پر محصول لگایا جاتا ہے۔ جسے (Sale Tax) کہتے ہے۔ یعنی ہر وہ چیز جو ہم کھاتے ہیں، ہر وہ چیز جو ہم پیتے ہیں اور ہر وہ چیز جسے ہم پہنتے ہیں، پر حکومت غریب عوام سے محصول وصول کرتی ہیں۔ لہٰذا اس نظام میں تقریباً ضروریات زندگی کی ہر چیز پر محصول (Tax) لگایا جاتا ہے۔ لہٰذا محصول لگانا(Tax) حکومتوں کا غریب عوام سے دولت بٹورنے کا ایک اہم آلہ ہے۔
جب حکومتیں ملکی خزانہ لوٹ لیتی ہے، تو پھر وہ قرضے لینا شروع کرتی ہے اور ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے وہ عوام سے طرح طرح کے محصول وصول کرتے ہے۔ لہٰذا آج کل تقریباً‍‎ ہر ملک کے باشندے جب پیدا ہوتے ہے تو وہ پیدائشی قرض دار پیدا ہوتے ہیں اور وہ ساری زندگی اپنی حکومتوں کے قرضوں کومحصولوں کی شکل میں ادا کرتے رہتے ہیں۔

بین الاقوامی تجارت

[ترمیم]

بین الاقوامی تجارت پر بھی ان مغربی قوتوں کا قبضہ ہے۔ اس وقت ہر دن دنیا میں کھربوں ڈالروں کی تجارت ہوتی ہیں اور تجارت کے بین الاقوامی قوانین کے تحت صرف چار کرنسیاں استعمال ہو سکتی ہیں جو ہیں ڈالر، یورو، پاونڈ اسٹرلنگ اور جاپانی ین۔ اور دنیا کی تقریباً 89 فیصد تجارت ڈالروں میں ہوتی ہے اور باقی گیارہ 11 فیصد ان تین دوسری کرنسیوں میں ہو تی ہے۔ اور ڈالروں کو چھاپنے کا اختیار امریکی نجی بینک کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ تو ڈالرکے ذریعے انھوں نے بین الاقوامی تجارت کو قابو میں کیا ہو ا ہے۔
لہٰذا کسی بھی ملک کی کرنسی کسی دوسرے ملک کی مارکیٹوں میں قبول نہیں کی جاتی اور نہ اس ملک کے صرافہ بازاروں میں صراف انھیں قبول کرتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ پاکستان سے امریکا جائیں تو امریکا میں جا کر وہاں اگر آپ مارکیٹ میں دکان دار کو پاکستانی کرنسی دیں گے تو وہ آپ سے یہ قبول نہیں کریں گے۔ اور اگر آپ وہاں کے صرافہ مارکیٹ میں بھی چلے جائے تو بھی آپ سے پاکستانی روپے قبول نہیں کیے جائنگے۔ لہٰذا امریکا جاتے وقت سب سے پہلے اپنے ملک کے صرافہ مارکیٹ میں جا کر آپ کو پاکستانی کرنسی کو ڈالروں میں تبدیل کر نہ ہو گا، ورنہ آپ کسی دوسری ملک کی مارکیٹ میں کوئی بھی چیز نہیں خرید سکتے۔
ترقی يافتہ ممالک غريب ممالک کے تاجروں کو اپنی مارکيٹوں ميں مال بيچنے پر پابندی لگائے ہوئے ہيں جبکہ وہ ترقی پذير ممالک کے مارکيٹوں ميں براہ راست مداخلت کرکے وہاں اپنا سامان بيچتے ہيں۔ اس خلاء کوکم کرنے کے لیے انھوں نے پہلے گیٹ کے نام سے ایک ادارہ قائم کيا جو ناکام ہوا پھر بعد ميں انھوں نے " بين الاقوامی تجارت کا ادارہ" (W.T.O)قائم کيا جو صرف اور صرف ترقی يافتہ ممالک کے حقوق کی پاسبانی کرتا ہے ۔

کارپوریشن

[ترمیم]

سرمایہ دارانہ نظام میں چونکہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جاتی ہے۔ لہٰذا بڑے سرمایہ دار بڑے بڑے شرکت کی کمپنیاں کھول دیتے ہیں جسے کارپوریشن کہا جاتا ہے۔ اس کارپوریشن میں ہر شخص شراکت کر سکتا ہے لیکن فیصلہ اور حکم اس کا چلے گا جو اس کمپنی کے اکاون فیصد(%51) حصے کا مالک ہو۔ لہٰذا بڑے سرمایہ دار اپنے نقصان کی شرکت کے لیے کارپوریشن کا استعمال کرتی ہے۔ لہٰذا جب کسی بڑی کمپنی کو فائدہ ہو تو وہ سال کے آخر میں اپنی شریکوں کو منافع دینے کی بجائے بڑا سرمایہ کار(%51کا مالک) یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس سال منافع تقسیم کرنے کی بجائے، اس کو کمپنی کی بڑھوتری کے لیے استعمال کرے گا تو اس کا فیصلہ مانا جائے گا اور باقی اُنچاس فیصد(%49)اثاثوں کی مالکان کی تعداد اگر ایک ہزار بھی ہو تو ان کا فیصلہ رد ّکر دیا جائے گا۔

بیمہ کی کمپنیاں

[ترمیم]

سرمایہ دارانہ نظام میں بیمہ کمپنیاں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بیمہ کمپنیاں لوگوں کی صحت، مال، تجارت وغیرہ کی ضمانت کرتی ہیں اور اس کے بدلے ہر شخص، کمپنی وغیرہ سے آمدنی کا خاص فیصد حصّہ لیتی ہے۔ لہٰذا جب پورے ملک کے سارے عوام کی صحت کا بیمہ لے کر کمپنی کو دیا جائے تو ملک کی ہر شخص کی آمدنی کا ایک خاص حصّہ اس کمپنی کو دیا جاتا ہے۔ لہٰذا وہ کمپنی راتوں رات انتہائی مالدار کمپنی بن جاتی ہیں۔ اور یہ کمپنیاں اپنی آمدن کی دس فیصد (%10) حصے کو بھی استعمال نہیں کرتی۔ لہٰذا کارپوریشن اور بیمہ کمپنیاں مغربی نظام معیشت کا اہم حصّہ ہیں ۔

بازارِ حصص (Stock Market)

[ترمیم]

سرمایہ دارانہ نظام کے اس نظام کا ایک اور ستون بازارِ حصص (Stock Market) ہیں۔ جہاں مختلف کمپنیاں (Corporations) اپنی کمپنی کے ایک خاص فیصد حصے کو فروخت کرتی ہیں۔ اس بازار کے ذریعے مغربی بین الاقوامی کمپنیاں کسی بھی ملک میں نجکاری کے عمل کو تیز کرکے وہاں کے وسائل پر براہِ راست قابض ہو جاتی ہیں۔ ان بازاروں میں سٹے بازی اور قیمار بازی ہوتی ہیں۔
اسٹاک مارکیٹ صرف کاغذی کرنسی کے بل پر زندہ رہ سکتی ہے۔ اگر کرنسی ہارڈ ہو (یعنی دھاتی سکوں سے بنی ہو) تو کیپیٹلزم اور اسٹاک مارکیٹ اپنی موت آپ مر جائیں گے۔

صرافہ بازار (Foreign Exchange Market)

[ترمیم]

سرمایہ دارانہ نظام میں صرافہ بازارکوخاص اہمیت حاصل ہے۔ کاغذی کرنسی کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ بین الاقوامی صرافہ بازار (Foreign Exchange Market) ہوتی ہے۔ جہاں صرف مختلف ملکوں کی کرنسیوں کے باہمی تبادلے کی وجہ سے اربوں ڈالر کی تجارت ہوتی ہیں۔ اور یہ بازار معیشت میں کوئی حقیقی دولت کا اضافہ نہیں کرتی بلکہ صرف کرنسیوں کے باہمی تبادلے سے تخمینی معیشت میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ یہاں بھی سٹے بازی اور قیمار بازی وغیرہ سے کام لیا جاتا ہے اور اس اضافے سے عام آدمی کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچتا ہے۔

نجکاری (Privatization)

[ترمیم]

سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی نظام میں نجکاری کو خاص اہمیت حاصل ہیں۔ جب مغربی طاقتیں کسی ملک کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں تو اس ملک کے حکومت کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ملک کے خزانوں کو نجکاری کے لیے مارکیٹ میں لائے۔ تو یہ مغربی بینکرز ان کو اپنی شرائط پر کوڑی کے داموں خرید لیتے ہیں۔ تو راتوں رات ملک کے سارے خزانوں پر انکا قبضہ ہوجاتا ہیں۔ اسلامی معاشی نظام میں ملکی خزانوں پر ساری عوام کا حق ہوتا ہے لہٰذا اس کو فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا اسلامی معاشی نظام میں نجکاری کے عمل کو محدود کر دیا جائے گا۔ اور ایسا کوئی معاہدہ کسی بھی کمپنی سے نہیں کیا جائے گا جس کی وجہ سے ملکی خزانوں پر چند نجکار افراد کا قبضہ ہو جائے۔[19][20]

قومی قرضہ (National Debt)

[ترمیم]

قومی قرضے کی وجہ سے مغربی طاقتیں ملکوں کی تمام پالیسیوں پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ جب حکومت ملکی خزانہ لوٹ لیتی ہے تو ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے تو وہ عالمی بینک (World Bank) اور عالمی مالیاتی فنڈ(IMF) وغیرہ کی طرف رجوع کرتی ہیں۔ اور یہ ادارے اس حکومت کو خاص فیصد سود پر قرض دیتے ہیں اور یہ قرض دیتے وقت وہ کچھ شرائط بھی ساتھ دیتے ہیں جن کے بغیر قرضہ نہیں دیا جاتا۔ مثلاً اگر وہ کسی ملک کو ایک ارب ڈالر قرض دیتے ہے دس فیصد سود پر۔ توساتھ ساتھ یہ بتاتے ہے کہ آپ ہر سال دس فیصد سود کے پیسے ہمیں کیسے واپس کریں گے۔ مثلاً وہ بتاتے ہے کہ عوام کی آمدنی پر10 فیصد اضافی محصول لگا دو۔ جو سالانہ دس کروڑ ڈالر بنتی ہے تو وہ ہمیں سالانہ سود کے طور پر دے دو۔ دس سالوں میں آپ ایک ارب ڈالر عالمی بینک کو واپس کر دیں گے جبکہ آپ پھر بھی ایک ارب ڈالر قرض دار رہیں گے۔
بعض ممالک جو دس کروڑ اضافی محصول (Tax) کو بھی ہڑپ کر دیتے ہیں تو پھر عالمی بینک اُسے کہتا ہے کہ تم اِتنے افراد کو نوکری سے نکال دو یا اپنے ملک میں اتنی فحاشی کے مراکز کھول دو۔ یا خاندانی منصوبہ بندی کو عام کر دو۔ یا ملک میں قیمار بازی، سٹے بازی وغیرہ کے اِتنے دفاتر کھول دو تو ہم آپ کو اِتنے کروڑ ڈالر کا قرضہ معاف کر دیں گے۔ تو جس ملک کی حکومت جتنی بدعنوان (Corrupt) ہوتی ہے اُتنی ہی وہ عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ کے زیر اثر ہوتی ہے۔ لہٰذا قومی قرضوں کی وجہ سے ملک کا ہر باشندہ قرضدار ہوتا ہے چاہے اُسے معلوم ہو یا نہ ہو۔[21][22]

قومی بجٹ

[ترمیم]

مغربی نظام معیشت میں سارے دوسرے ستونوں پر اثر انداز ہونے والی ستون قومی بجٹ ہے۔ قومی بجٹ دراصل ملک کی مجموعی آمدنی اور اخراجات کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس نظام میں دو قسم کا بجٹ ہوتا ہیں، پہلا عمو می بجٹ اور دوسرا ترقیاتی بجٹ۔ عمومی بجٹ میں موجودہ نظام کو چلانے کے اخراجات کا تعین کیا جاتاہے۔ یعنی موجودہ دورمیں جاری منصوبوں پر خرچے کا تعین ہوتا ہے۔ جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔ اور ترقیاتی بجٹ میں نئے منصوبوں کے لیے اخراجات کا تعین ہوتا ہیں مثلاً نئی سڑکیں، کالجیں، کارخانے وغیرہ بنانا۔
اب ہوتا یہ ہے کہ اگر ملک کی آمدنی سو روپے ہو اور موجودہ نظام کو چلانے کے لیے سو روپے درکار ہو تو یہ لوگ مجموعی بجٹ سو روپے کا نہیں بناتے بلکہ ایک سو پچاس (150) روپے کا بناتے ہیں۔ جس میں سو روپے موجودہ اخراجات کے لیے اور پچاس روپے ترقیاتی کاموں کے لیے مخصوص کیے جاتے ہیں۔ اب حکومت کے پاس یہ مزید پچاس روپے تو ہو تے نہیں لہٰذا یہ حکومتی بجٹ ہمیشہ خسارے کا شکار رہتی ہیں۔ لہٰذا مغربی نظام معیشت میں تقریباًہر ملک خسارے کا شکار رہتا ہے یعنی اس کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی لیے امریکی حکومت جو عالمی معیشت میں اوّل درجہ رکھتی ہے، بھی خسارے کا شکار رہتے ہے۔ لہٰذا 2013 ءمیں امریکی بجٹ تقریباً 13 کھرب ڈالر تھا جبکہ حکو مت تقریباً 16 کھرب ڈالر کی قرض دار تھی۔

سرمایہ دارانہ نظام کی اہم خصوصیات

[ترمیم]
  • سرمایہ دارانہ نظام میں ایک دولت مند شخص اپنے اعمال و افکار میں خود مختار ہوتا ہے۔
  • اس نظام میں ذاتی ملکیت کا تحفظ کیا جاتا ہے۔
  • اس نظام میں آزاد معیشت پائی جاتی ہے۔
  • اس نظام میں روزگار کے مواقع بکثرت پائے جاتے ہیں ۔
  • نجی ملکیت بغیر حدود و قیود کے ہوتی ہے
  • منڈی مکمل طور پر آزاد ہوتی ہے
  • سرمایہ کی ترسیل اور نقل و حرکت آزاد ہوتی ہے
  • منافع کی مقدار کو حکومت یا کسی ادارہ کے اختیار میں نہیں لاتا جاتا
  • قیمتیں طلب و رسد کے توازن سے متعین ہوتی ہیں چاہے طلب مصنوعی ہو یا چاہے رسد کو سرمایہ دار قیمت بڑھانے کے لیے مصنوعی طور پر کم کریں
  • منڈی کی قوتیں خود کو درست کرنے کی طاقت رکھتی ہیں چنانچہ سرمایہ دارانہ نظام میں حکومت یا کسی ادارہ کی منڈی میں مداخلت کا تصور حقیقی سرمایہ دارانہ نظام کی روح کے خلاف ہے

مزید دیکھیے

[ترمیم]

بیرونی ربط

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. Degen, Robert. The Triumph of Capitalism. 1st ed. New Brunswick, NJ: Transaction Publishers, 2008.
  2. Skousen, Mark (2001)۔ The Making of Modern Economics: The Lives and Ideas of the Great Thinkers۔ M.E. Sharpe۔ صفحہ: 98–102, 134 
  3. arthur Sullivan، Steven M. Sheffrin (2003)۔ Economics: Principles in action۔ Upper Saddle River, New Jersey 07458: Prentice Hall۔ صفحہ: 261۔ ISBN 0-13-063085-3۔ 20 دسمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2014 
  4. arthur Sullivan، Steven M. Sheffrin (2003)۔ Economics: Principles in action۔ Upper Saddle River, New Jersey 07458: Prentice Hall۔ صفحہ: 506۔ ISBN 0-13-063085-3۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2014 
  5. "An Empire of Fraud and Deception"۔ 18 اپریل 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2014 
  6. "جعلی دولت"۔ businessinsider۔ 13 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  7. "چند بینکار خاندان جو پوری دنیا کو کنٹرول کرتے ہیں"۔ wordpress۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  8. "the money masters"۔ themoneymasters۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  9. "paper money is fraud"۔ blogspot۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  10. "paper money is fraud"۔ facebook۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  11. "paper money is fraud"۔ ecclesia۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  12. Irving Fisher (1997)۔ 100% Money۔ Pickering & Chatto Ltd۔ ISBN 978-1-85196-236-5 
  13. Murray Rothbard (2008)۔ The Mystery of Banking 
  14. Mervyn King۔ "The transmission mechanism of monetary policy"۔ Bank of England 
  15. Glen Stevens۔ "The Australian Economy: Then and Now"۔ Reserve Bank of Australia۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2014 
  16. Adair Turner۔ "Credit Money and Leverage, what Wicksell, Hayek and Fisher knew and modern macroeconomics forgot" (PDF) [مردہ ربط]
  17. McLeay۔ "Money creation in the modern economy" (PDF)۔ Bank of England۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2014 
  18. William White۔ "Changing views on how best to conduct monetary policy: the last fifty years"۔ Bank for International Settlements۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2014 
  19. David Moberg (6 June 2014). Privatizing Government Services Doesn’t Only Hurt Public Workers. In These Times. Retrieved 28 June 2014.
  20. Joshua Holland (17 July 2014). How a Bogus, Industry-Funded Study Helped Spur a Privatization Disaster in Michigan. Moyers & Company. Retrieved 12 December 2014.
  21. "Long-term interest rate statistics for EU Member States"۔ ECB۔ 12 July 2011۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2014 
  22. Graeme Wearden (20 September 2011)۔ "EU debt crisis: Italy hit with rating downgrade"۔ The Guardian۔ UK۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2011