مندرجات کا رخ کریں

مسجد الحرام

متناسقات: 21°25′19″N 39°49′34″E / 21.422°N 39.826°E / 21.422; 39.826
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
المسجد الحرام
حرمت والی مسجد
مکہ کی عظیم مسجد کا فضائی منظر
مسجد الحرام is located in سعودی عرب
مسجد الحرام
سعودی عرب میں مقام
مسجد الحرام is located in ایشیا
مسجد الحرام
مسجد الحرام (ایشیا)
مسجد الحرام is located in زمین
مسجد الحرام
مسجد الحرام (زمین)
بنیادی معلومات
متناسقات21°25′19″N 39°49′34″E / 21.422°N 39.826°E / 21.422; 39.826
مذہبی انتساباسلام
ملکسعودی عرب
انتظامیہگورنمنٹ آف سعودی عرب
سربراہیعبد الرحمٰن السدیس
سعود الشریم
صالح بن عبد اللہ بن حمید
علی احمد مُلا (چیف معزین۔)
تعمیراتی تفصیلات
نوعیتِ تعمیرمسجد
تاریخ تاسیساسلامی فکر میں عہد ابراہیم۔[2]
تفصیلات
گنجائش4 ملین عبادت گزار[3]
مینار9
مینار کی بلندی89 میٹر (292 فٹ)
Site area356,000 مربع میٹر[4]

170PX

بسلسلہ مضامین:
اسلام

فائل:High veiw.JPG
خلا سے مسجد حرام کا روح پرور منظر

مسجد حرام جزیرہ نما عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں واقع ہے جو سطح سمندر سے 330 میٹر کی بلندی پر واقع ہے، مسجد حرام کی تعمیری تاریخ عہد حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام سے تعلق رکھتی ہے۔ مسجد حرام کے درمیان میں بیت اللہ واقع ہے جس کی طرف رخ کر کے دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ نماز ادا کرتے ہیں۔ بیرونی و اندرونی مقام عبادات کو ملا کر مسجد حرام کا کل رقبہ 40 لاکھ 8 ہزار 20 مربع میٹر ہے اور حج کے دوران میں اس میں 40 لاکھ 20 ہزار افراد سماسکتے ہیں۔

اہمیت

دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ مسجد حرام میں قائم خانہ کعبہ کی جانب رخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں جبکہ یہ دنیا کا واحد مقام ہے جس کا حج کیا جاتا ہے۔ یہ زمین پر قائم ہونے والی پہلی مسجد ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوذر سے حدیث مروی ہے کہ : ابوذر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوپوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : مسجد حرام، میں نے کہا کہ اس کے بعد کون سی؟ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : مسجد اقصیٰ، میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان میں کتنی مدت کا فرق ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : چالیس برس

تعمیری تاریخ

کعبہ جو مشرق و مغرب میں سب مسلمانوں کا قبلہ ہے مسجد حرام کے تقریباً وسط میں قائم ہے جس کی بلندی تقریباً 15 میٹر ہے اور وہ ایک چوکور حجرہ کی شکل میں بنایا گیا ہے جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے بنایا۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اورجبکہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کردی اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اورمیرے گھر کو طواف قیام رکوع کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا ( الحج آیت 26 )۔ وہب بن منبہ کا کہنا ہے : کعبہ کو ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا پھر ان کے بعد عمالقہ نے اور پھر جرہم اور ان کے بعد قصی بن کلاب نے بنایا اور پھر قریش کی تعمیر تومعروف ہی ہے۔

قریش کعبہ کی تعمیر وادی کے پتھروں سے کرنے کے لیے ان پتھروں کو اپنے کندھوں پراٹھا کر لاتے اور بیت اللہ کی بلندی 20 ہاتھ رکھی، کعبہ کی تعمیر اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی کے نزول کا درمیانی وقفہ 5 برس اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مکہ سے نکل کرمدینہ جانے اور کعبہ کی تعمیر کی درمیانی مدت 15 برس تھی۔

جب قریشی قبائل اس کی بنیادیں اٹھا کر حجر اسود تک پہنچے تو ان میں اختلاف پیدا ہو گیا کہ اسے کون اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھے گا حتی کہ لڑائی تک جا پہنچے تو وہ کہنے لگے کہ چلو ہم کسی کو اپنا منصف بنائیں۔ کسی نے مشورہ دیا کہ صبح جو سب سے پہلے یہاں داخل ہوگا وہ حجر اسود نصب کرے گا۔ اس پر سب کا اتفاق ہو گیا۔

سب سے پہلے مسجد میں داخل ہونے والے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی تھے جو اس وقت نوجوان تھے اور انھوں نے اپنے کندھوں پر دھاری دار چادر ڈال رکھی تھی تو قریش نے انھیں اپنا فیصل مان لیا، تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کپڑا منگوا کر حجر اسود اس میں رکھا اور ہر قبیلے کے سردار کو چادر کے کونے پکڑ کر اٹھانے کا حکم دیا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجر اسود کواپنے ہاتھوں سے اٹھا کر اس کی جگہ پر نصب کر دیا۔

مسجد حرام کی پہلی چار دیواری عمر فاروق نے 639ء میں بنائی تھی جبکہ 777ء میں مہدی کے دور میں مسجد کی تاریخ کی اس وقت کی سب سے بڑی توسیع ہوئی تھی جس کے گرد 1576ء میں عثمانی ترکوں نے سفید گنبدوں والے برآمدے بنائے تھے جو اکیسویں صدی تک موجود تھے۔ یہ چار دیواری بنانے کا سبب یہ تھا کہ لوگوں نے مکانات بنا کر بیت اللہ کو تنگ کر دیا اوراپنے گھروں کو اس کے بالکل قریب کر دیا تو عمر بن خطاب کہنے لگے : بلاشبہ کعبہ اللہ تعالٰی کا گھر ہے اورپھر گھر کے لیے صحن کا ہونا ضروری ہے تو عمر بن خطاب نے ان گھروں کوخرید کر منہدم کر کے اسے بیت اللہ میں شامل کر دیا۔ تو اس طرح مسجد کے اردگرد قد سے چھوٹی دیوار بنا دی گئی جس پر چراغ رکھے جاتے تھے، اس کے بعد حضرت عثمان نے بھی کچھ اورگھر خریدے جس کی قیمت بھی بہت زیاد ادا کی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عثمان ہے وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے مسجد کی توسیع کرتے وقت ایک ستون والے مکان بنائے۔ حضرت ابن زبیر نے مسجد کی توسیع نہیں بلکہ اس کی مرمت وغیرہ کروائی اوراس میں دروازے زیادہ کیے اور پتھر کے ستون بنائے اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عبدالملک بن مروان نے مسجد کی چاردیواری اونچی کروائی اورسمندر کے راستے مصر سے ستون جدہ بھیجے اور جدہ سے اسے ریڑھی پر رکھ کر مکہ مکرمہ پہنچایا اور حجاج بن یوسف کوحکم دیا کہ وہ اسے وہاں لگائے۔ جب ولید بن عبدالملک مسند پربیٹھا تو اس نے کعبہ کے تزئین میں اضافہ کیا اور پرنالہ اورچھت میں کچھ تبدیلی کی، اوراسی طرح منصور اور اس کے بیٹے مہدی نے بھی مسجد کی تزئین و آرائش کی۔ آج کل مسجد کے کل 112 چھوٹے بڑے دروازے ہیں جن میں سب سے پہلا اور مرکزی دروازہ سعودی عرب کے پہلے فرمانروا شاہ عبدالعزیز کے نام پر موسوم ہے جس نے تیل کی دولت دریافت ہونے کے بعد حاصل ہونے والی مالی آسودگی اور ذرائع آمد و رفت مثلاً ہوائی جہازوں وغیرہ کی ایجاد سے ہونے والی آسانیوں سے حاجیوں کی تعداد میں بے پناہ اضافے کے بعد مسجد حرام میں تعمیر و توسیع کا ارادہ کیا تھا۔ اس کے انتقال کے بعد شاہ سعود کے دور میں مسجد کی تاریخ کی سب سے بڑی تعمیر شروع ہوئی اور سابق ترکی تعمیر کے برآمدوں کے پیچھے دو منزلہ عمارت بنی۔ اس تعمیر میں مختلف دروازے بنائے گئے تو مسجد کے جنوب کی طرف سے چار میں سے پہلا اور بڑا دروازہ بنایا گیا جس کا نام باب عبدالعزیز رکھا گیا۔ دوسرا بڑا دروازہ باب الفتح ہے جو شمال مشرق میں مروہ کے قریب ہے جہاں 12 جنوری 630ء کو فتح مکہ کے دن اسلامی لشکر نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیر قیادت مسجد حرام میں داخل ہوا۔ تیسرا بڑا دروازہ باب العمرہ ہے جو شمال مغرب کی طرف ہے اور جہاں سے نبی پاک صلی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپریل 629ء میں عمرے کی سعادت حاصل کی تھی جبکہ چوتھا بڑا دروازہ باب فہد ہے جو مغرب کی سمت ہے۔ ان کے علاوہ مختلف واقعات اور مقامات کی یاد میں مسجد کے دیگر دروازوں کے نام رکھے گئے ہیں۔ شاہ فہد بن عبد العزیز کے زمانے میں تاریخ کی سب سے بڑی توسیع 1993ء میں مکمل ہوئی۔ مسجد حرام میں کچھ دینی آثار بھی ہیں، جن میں مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پرابراہیم علیہ السلام کھڑے ہو کر بیت اللہ کی دیواریں تعمیر کرتے رہے اور اسی طرح مسجد میں زمزم کا کنواں بھی ہے جو ایسا چشمہ ہے جسے اللہ تعالٰی نے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ ہاجرہ کے لیے نکالاتھا۔ اور اسی طرح یہ بھی نہیں بھولا جا سکتا کہ اس میں حجر اسود اور رکن یمانی بھی ہے جو جنت کے یاقوتوں میں سے دو یاقوت ہیں جیسا کہ امام ترمذی اور امام احمد نے حدیث بیان کی ہے : حضرت عبد اللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا : بلاشبہ حجر اسود اور مقام ابراہیم جنت کے یاقوتوں میں سے یاقوت ہیں اللہ تعالٰی نے ان کے نور اور روشنی کو ختم کر دیا ہے اگراللہ تعالٰی اس روشنی کو ختم نہ کرتا تو مشرق و مغرب کا درمیانی حصہ روشن ہوجاتا۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 804 )۔

مسجد حرام سے ملحق صفا اور مروہ کی پہاڑیاں بھی ہیں، اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا : صفا اورمروہ اللہ تعالٰی کی نشانیوں میں سے ہیں اس لیے بیت اللہ کا حج وعمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں، اپنی خوشی سے بھلائی کرنے والوں کا اللہ تعالٰی قدر دان ہے اور انھیں خوب جاننے والا ہے (البقرہ 158)۔

اورمسجد حرام کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالٰی نے اسے امن کا گہوارہ بنایا ہے اوراس میں ایک نماز ایک لاکھ کے برابر ہے، فرمان باری تعالٰی ہے : ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے ثواب اورامن وامان کی جگہ بنائی، تم مقام ابراہیم کوجائے نماز مقرر کرلو، ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھرکو طواف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو (البقرہ 125 )۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے : جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں مقام ابراہیم ہے اس میں جو آجائے امن والا ہو جاتا ہے، اللہ تعالٰی نے ان لوگوں پر جواس کی طرف راہ پا سکتے ہوں اس گھرکا حج فرض کر دیا ہے اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالٰی ( اس سے بلکہ ) تمام دنیا سے بے پروا ہے ( آل عمران 97 )

اسلام کے ابتدائی زمانے میں مسجد آج کے مقابلے میں بہت چھوٹی تھی۔ عثمانی دور میں مسجد تقریباً موجودہ صحن کے رقبے تک پھیل گئی۔ سب سے عظیم توسیع سعودی دور حکومت میں ہوئی جس میں مسجد کو دور جدید کے معیارات کے مطابق بنایا گیا اور ایئر کنڈیشنر اور برقی سیڑھیاں بھی نصب کی گئیں۔ اس وقت مسجد کی تین سے زیادہ منزلیں ہیں جن میں ہزاروں نمازی عبادت کرسکتے ہیں۔

ائمہ حرم مكی

  • شیخ عبد الرحمٰن بن عبد العزيز السدیس
  • شیخ سعود بن ابراہيم الشريم
  • شیخ عبد اللہ عواد الجہنى
  • شیخ ماہر بن الحمد المعيقلى
  • شیخ اسامہ بن عبد اللہ الخياط
  • شیخ ياسر الدوسری
  • شیخ صالح بن حميد
  • شیخ فيصل الغزاوی
  • شیخ صالح بن محمد بن ابراہيم آل طالب
  • شیخ خالد الغامدى
  • شیخ بندر بن عبد العزيز بليلہ
  • شیخ محمد حسن بخاری

مشہور دروازے

  • 1- باب الملك عبد العزيز
  • 5- باب اجياد
  • 6- باب جلال
  • 9- باب حنين
  • 10- باب اسماعيل
  • 11- باب الصفا
  • 17- باب بنی ہاشم
  • 19- باب علی
  • 20- باب العبا
  • 22- باب النبی
  • 24- باب الاسلام
  • 26- باب بنی شيبہ
  • 27- باب الحجون
  • 29- باب المعلاة
  • 30- باب المدعى
  • 31- باب المروة
  • 37- باب المحصب
  • 38- باب عرفہ
  • 39- باب منى
  • 43- باب القرارة
  • 45- باب الفتح
  • 49- باب عمر
  • 51- باب الندوة
  • 52- باب الشماميہ
  • 55- باب القدس
  • 56- باب المدينہ
  • 58- باب الحديبيہ
  • 62- باب العمرة
  • 79- باب الملك فہد

حوالہ جات

  1. "Location of Masjid al-Haram"۔ Google Maps۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2013 
  2. Zeitlin, I. M. (2013-04-25)۔ "3"۔ The Historical Muhammad۔ جان وائلی اینڈ سنز۔ ISBN 978-0-7456-5488-1 
  3. "Revealed: The world's 20 most expensive buildings"۔ The Telegraph (بزبان انگریزی)۔ 2016-07-27۔ ISSN 0307-1235۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جولا‎ئی 2020 
  4. Ali Daye (21 مارچ 2018)۔ "Grand Mosque Expansion Highlights Growth of Saudi Arabian Tourism Industry (6 mins)"۔ Cornell Real Estate Review (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 فروری 2019 

مزید دیکھیے

بیرونی روابط

سانچہ:شیعہ اسلام میں مقدس ترین مقامات