ابراہیم منشی
| ||
تاریخ پیدائش: | 15 جنوری 1934 | |
جائے پیدائش: | ٹنڈو محمد خان | |
تاریخ وفات: | 06 اگست 2003 | |
جائے وفات: | ||
مدفن: | سجاول، ضلع ٹھٹہ |
ابراہیم منشی سندھ کے نامور، عوامی اور انقلابی شاعر تھے۔ وہ 15 جنوری 1934ء کو ٹنڈو محمد خان کے قریب جنہان سومرو گاؤں میں پیدا ہوئے[1]۔ والد کے انتقال کی وجہ سے وہ چوتھی جماعت سے آگے نہیں پڑھ سکے تاہم ان کا مطالعہ اور مشاہدہ بہت وسیع تھا۔ انھوں نے سولہ سال کی عمر میں رومانوی شاعری شروع کی اور بعد میں عوامی اور انقلابی شاعری کرنے لگے۔ ان کی نظمیں 1965ء کے بعد مختلف جرائد میں چھپنا شروع ہوئیں۔ ان کی شاعری کا محور سندھ اور سندھ کے لوگ رہے۔
منشی کے چار مجموعہ کلام دھونرے ڈینہن دھاڑا ( دن دہاڑے ڈاکے)، گوندر ویندا گذری ( غمِ دن ڈھل جائیں گے)، دھرتی دین دھرم اور پیغام، مظلوم، شائع ہو چکے ہیں۔ انقلابی شاعری عوامی لہجے، لوک موسیقیت اور دھن کی وجہ سے بے حد مقبول ہوئی۔ منشی کی شاعری سندھ کے سیاسی کارکنوں کے لیے ہمیشہ جذبہ اور حوصلہ دلانے کا باعث رہی۔ وہ شاہ عبدالطیف بھٹائی کے بڑے معتقد تھے اور جب وہ مخصوص انداز میں بھٹائی کا کلام پڑھتے تھے تو سننے والوں پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ ان کی آواز میں تحت کلام کے انداز میں بھٹائی کی شاعری ریڈیو پاکستان اور بعض دیگر ثقافتی اداروں نے ریکارڈ کی۔ محکمۂ ثقافت سندھ نے ان کی آواز اوردھن میں گائی ہوئی بھٹائی کی شاعری انٹرنیٹ پر بھی جاری کی تھی۔ منشی شاعروں کے اس مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے جو کتب میں چھپوا کر الماریوں میں بند رکھنے کے لیے شاعری نہیں کرتے تھے بلکہ ایسی شاعری کرتے تھے جو واقعی گائی بھی جاسکے۔
ابراہیم منشی شروع سے ہی قوم پرست سیاست میں سرگرم رہے۔ وہ سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کے بڑے معتقد تھے، چھ مرتبہ مختلف ادوار میں قید رہے۔ دل کے عارضے میں مبتلا تھے لیکن غربت کی وجہ سے علاج نہ کرا سکے۔ جس کی وجہ سے 6 اگست، 2003ء میں سجاول، ضلع ٹھٹہ میں ان کا انتقال ہوا۔[1]
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات ناموران پاکستان، لاہور، اردو سائنس بورڈ، لاہور، 2006ء، ص 89