مندرجات کا رخ کریں

دلشاد کلانچوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
دلشاد کلانچوی
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (اردو میں: عطا محمد ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 24 مئی 1915ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ریاست بہاولپور ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 16 فروری 1997ء (82 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہاولپور ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد مسرت کلانچوی   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپور
اسلامیہ کالج لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد ایم اے   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  نقاد ،  پروفیسر ،  ناول نگار ،  مترجم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان سرائیکی ،  اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپور ،  اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

دلشاد کلانچوی (پیدائش: 24 مئی، 1915ء - وفات: 16 فروری، 1997ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو شاعر اور سرائیکی زبان و ادب کے نامور محقق، نقاد، شاعر، ناول نگار، مترجم، ماہرِ اقبالیات اور شعبہ سرائیکی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے پروفیسر تھے۔

خاندان پس منظر و پیدائش

[ترمیم]

دلشاد کلانچوی کا سلسلہ نسب حضرت علی بن ابی طالب کی غیر فاطمی اولاد سے جا ملتا ہے۔ ان کا قبیلہ 1035ء میں محمود غزنوی کے دور میں ہرات سے گذر کر وادی سون سکیسر کے علاقہ سبھرال میں آباد ہوا۔ دلشاد کلانچوی کے دادا کا نام محمداحمد تھا۔ محمد احمد تقریباً سو سال قبل اپنے بیٹے غلام محمد کے ہمراہ ریاست بہاولپور چلے آئے اور بہاولپور شہر کے مغرب کی جانب تقریباً اٹھارہ میل کے فاصلے پر کلاچ والا میں رہائش پزیر ہو گئے۔ کلانچ والا میں اس زمانے میں قریشی خاندان علم و فضل اور درس و تدریس میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ دلشاد کلانچوی کے دادا محمد احمد نے اپنے اکلوتے بیٹے غلام محمد کو قریشی خاندان کے ایک بزرگ مولوی امام الدین قریشی کی شاگردی میں دے دیا۔ دلشاد کلانچوی کے والد حافظ غلام محمد نہایت نیک سیرت اور شریف الطبع انسان تھے۔ ان کے استاد امام الدین قریشی ان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے اپنی دختر کا رشتہ ان سے کر دیا اور انھیں گھر داماد بنا لیا۔ یہیں بستی کلانچ والا، ریاست بہاولپورمیں 24 مئی، 1915ء کو دلشاد کلانچوی پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عطا محمد تھا لیکن ادبی دنیا میں دلشاد کلانچوی کے نام سے مشہور ہوئے۔[1]

ابتدائی زندگی اور تعلیم

[ترمیم]

دلشاد کلانچوی کے گھر کا ماحول دینی و مذہبی تھا۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ سات سال کی عمر میں انھیں بستی سندیں میں واقع پرائمری اسکول میں دخل کر دیا گیا۔ ابھی 6 سال کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ان کی والدہ باہمت خاتون تھی جنھوں نے دونوں بیٹوں کو ماں کی محبت کے ساتھ باپ کی شفقت بھی دی۔ پرائمری تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد دلشاد کچھ عرصے تک گھر پر ہی رہے۔ والدہ نے ان کے تعلیمی ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے 1929ء میں انھیں اپنے کزن مولوی عبد القادر صدیقی کے پاس بہاولپور بھیج دیا جنھوں نے دلشاد کو صادق ڈین ہائی اسکول بہاولپور میں داخل کرا دیا۔ یہاں انھوں نے پہلے سال انگلش جونئیر کی تعلیم حاصل کی اور وہ 1930ء میں شعبہ ثانوی میں آ گئے۔ بڑے بھائی انھیں اخراجات کے لیے رقم روانہ کیا کرتے تھے لیکن صادق اسکول میں داخل ہونے کے ڈیڑھ سال بعد ان کے بڑے بھائی کا انتقال ہو گیا اور گھر سے رقم آنے کا سلسلہ یکدم منقطع ہو گیا۔[2]ان حالات سے مجبور ہرکر دلشاد نے نے سرکاری یتیم خانہ میں داخلہ کے لیے درخواست دی اور انھیں شیخ غوث محمد ڈپٹی انسپکٹر آف اسکولز کی سفارش پر کلاس ہفتم کے دوران میں ڈیڑھ سال کے لیے (آٹھویں جماعت پاس کرنے تک) سرکاری یتیم خانہ (دارالطفال) میں داخل کر لیا گیا۔ یتیم خانے کے قواعد کے مطابق ایک طالب علم خاص مدت تک زیرِ تعلیم رہ سکتا تھا اور دسویں جماعت تک وظیفہ پا سکتا تھا۔ دلشاد ذہین بھی تھے اور محنتی بھی، انھوں نے دل لگا کر تعلیم حاصل کی اور 1933ء میں آٹھویں کے امتحان میں ریاست بہاولپور میں اول آئے، جس کے سبب یتیم خانہ کے سپرنٹنڈنٹ نے انھیں خصوصی اجازت نامہ کے ذریعے بی اے تک یتیم خانہ کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دلا دی۔ 1935ء میں انھوں نے میڑک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ میٹرک کے بعد اسی سال وہ گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپور میں داخل ہو گئے، جہاں سے 1939ء میں انھوں نے بی اے کا امتحان اعلیٰ نمبروں میں پاس کیا۔ بی اے پاس کرنے کے بعد 1941ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے ایم اے (معاشیات) کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں 54-1953ء میں ایم اے (اردو) کی ڈگری بطور پرائیویٹ امیدوار حاصل کی۔[3]

ملازمت و ادبی خدمات

[ترمیم]

دلشاد کلانچوی نے ایم اے (معاشیات) کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد لاہور سے واپس بہاولپور آئے اور 1942ء میں ان شادی ان کے استاد اور ماموں مولوی عبد القادر صدیقی کی بیٹی سے ہو گئی۔ شادی کے بعد ملازمت کی تلاش شروع کر دی اور آخر کار 27 مئی 1942ء میں ریاست بہاولپور کے محکمہ تعلیم میں بطور کلرک ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہاں وہ تقریباً ایک سال تک کام کرتے رہے۔ یکم جون 1943ء میں ایس ای کالج بہاولپور میں ایک لیکچرار کی نئی آسامی پیدا کی گئی اور انھیں بطور لیکچرار مقرر کر دیا گیا۔ ریاست بہاولپور کے پاکستان میں ضمن ہونے کے بعد 14 اکتوبر 1955ء میں انھیں ترقی دے کر پروفیسر بنا دیا گیا۔ 30 ستمبر 1963ء میں گورنمنٹ انٹر کالج مظفرگڑھ کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ بعد ازاں 19 اکتوبر 1965ء گورنمنٹ ڈگری کالج بہاولنگر کے پرنسپل کا چارج سنبھالا۔ 19 مارچ 1970ء کو وہ گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپور کے پرنسپل بنا دیے گئے جہاں سے 3 مارچ 1971ء کو ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔[4]

ریٹائرمنٹ کے بعد 6 جنوری 1972ء کو امیر آف بہاولپور نواب عباس خان عباسی نے انھیں صادق عباسی (پرئیویٹ) کالج ڈیرہ نواب کا پرنسپل مقرر کر دیا جہاں وہ 4 مارچ 1974ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔ 1989ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سرائیکی شعبہ کا آغاز ہوا تو دلشاد کلانچوی اکتوبر 1989ء سے جز وقتی پروفیسر کی حیثیت سے منسلک ہو گئے اور تادمِ مرگ وہاں پڑھاتے رہے۔[5]

ادبی خدمات

[ترمیم]

دلشاد کلانچوی کی ادبی زندگی کا آغاز زمانہ طالب علمی میں ہی ہو گیا تھا۔ وہ ابھی چھٹی یا ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھے کہ بچوں کے رسالوں کے لیے لکھنے لگ گئے۔ میٹرک پاس کرنے تک ان کی متعدد کاوشیں چھپ چکی تھیں۔ ایس ای کالج بہاولپور میں داخل ہوئے تو کالج میگزین کے لیے لکھتے رہے۔ اسی زمانے میں انھوں نے نظمیں بھی لکھیں۔ ان کی ایک نظم معریٰ انتظار اسی زمانہ طالب علمی کی یادگار ہے۔[6] دلشاد کلانچوی بنیادی طور پر معلم تھے۔ انھوں نے ساری زندگی درس و تدریس میں گزار دی، اسی زمانے میں انھوں نے طلبہ کی درسی ضروریات کے لیے چھ کتب لکھیں جن میں اصلاحات معاشیات، رہبر معاشیات پاک و ہند، نظریات معاشیات وغیرہ نمایاں ہیں۔[7] ان کا پہلا سرائیکی افسانہ روہی دا خواب ماہنامہ سرائیکی بہاولپور میں شائع ہوا۔ انھوں نے چھوٹی بڑی 69 کتابیں تصنیف و تالیف کیں، جن میں 10 اردو زبان میں، 3 انگریزی میں اور 56 سرائیکی زبان میں ہیں۔ انھیں سرائیکی زبان سے بہت زیادہ محبت تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے خود کو سرائیکی زبان کے لیے وقف کر دیا۔ 23 مارچ 1971ء کو انھوں نے سرائیکی لائبریری بہاولپور قائم کی جہاں سے سرائیکی زبان و ادب پر کام کرنے والے محققین نے بہت فیض پایا۔ انھوں نے سرائیکی زبان و ادب کی ترقی کے لیے جنوری 1986ء میں چار صفحات پر مشتمل ایک ماہانہ خبرنامہ سرائیکی زبان جاری کیا جو 1989ء تک جاری رہا۔ ان کی سرائیکی زبان سے محبت کے بارے میں ان کی بیٹی نامور افسانہ نگار و ڈراما نویس مسرت کلانچوی کہتی ہیں:

سرائیکی اُن کا اوڑھنا بچھونا ہے، اُن کی زندگی کا مقصد ہے، اُن کی عزیز ترین شے ہے۔ انہوں نے خود کو اس کے لیے وقف کر دیا۔ وہ ایک دن اداس بیٹھے تھے کہ چچا نظام الدین آئے، پوچھا بھائی صاحب آپ نے سب بچوں کو پڑھا لکھا کر برسرِ روزگار کر دیا۔ ان کی شادیاں کردیں، سب بچے خوش اور آباد ہیں، پھر بھی آپ پریشان ہیں۔ آخر کیوں؟ انہوں نے جواب دیا مجھے سرائیکی کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ میں اپنے بچوں کے فرض سے تو سبکدوش ہو گیا ہوں لیکن سرائیکی کا فرض ابھی ادا کرنا ہے۔[8]

تصانیف

[ترمیم]

سرائیکی

[ترمیم]
  • سوکھے ترجمہ آلا قرآن مجید (قرآن مجید کا سرائیکی ترجمہ)[9][10]
  • چنگا بال اقبال (اقبالیات)
  • کون فرید فقیر (اقبالیات)
  • ساڈا بخت اقبال (اقبالیات)
  • سارے سگن سُہا گڑے (ناول)
  • کلام کلانچوی(شاعری)
  • غالب دیاں غزلاں (غالب کی غزلیات کا سرائیکی ترجمہ)
  • ڈپٹی نذیر احمد کے ناول توبۃ النصوع کا سرائیکی ترجمہ)
  • توبہ زاری (ڈپٹی نذیر احمد کے ناول توبۃ النصوح کا سرائیکی ترجمہ)
  • سرائیکی گُل پُھل (مضامین)
  • ضلع بہاول پور (تاریخ)
  • کون فرید فقیر (فریدی شناسی)
  • فریدیات (کلام فرید کا تنقیدی مطالعہ)
  • سرائیکی زبان تے ادب (تنقید)
  • سرائیکی باغ و بہار (تنقید)
  • فرید کافیاں (منتخب کلام فرید کا ترجمہ و تشریح)
  • فریدی ڈوہڑے (فریدی شناسی)
  • چار سرائیکی صوفی شاعر (تنقید)
  • قدیم سرائیکی شاعر تے ادیب (تنقید)
  • بہاول پور دی تاریخ تے ثقافت (تاریخ و ثقافت)
  • چنگیر (بچوں کے نظمیں)
  • لغات دلشادیہ -اول (لسانیات)
  • لغات دلشادیہ -دوم (لسانیات)
  • سرائیکی لسانیات (لسانیات)
  • سرائیکی شاعری دے اوزان تے قوافی (فن شعر و شاعری)
  • سرائیکی ادب دی چنگیر (تنقید)
  • قرآن مجید آپڑیں متعلق کیا آہدے؟ (اسلام)
  • انارکلی تے اقتدار دی ہوس (امتیاز علی تاج کے ڈرامے انارکلی کا سرائیکی ترجمہ)
  • چالیھ حدیثاں (سرائیکی ترجمہ احادیث)
  • خواباں وچ خیال (محمد حسین آزاد کی کتاب نیرنگ خیال کا سرائیکی ترجمہ)
  • خیابانِ خرام (خرم بہاولپوری کے سرائیکی کلام کی ترتیب و تدوین)
  • رات دی کندھ (ڈرامے، افسانے)
  • قصے تے پِڑ قصہ (میر امن کی باغ و بہار کا سرائیکی ترجمہ)
  • مثنوی دلبہار (میر حسن کی مثنوی سحر البیان کا سرائیکی ترجمہ)
  • نور نامہ (ترتیب و تدوین)
  • معراج نامہ (ترتیب و تدوین)
  • نعتیہ سی حرفی (شاعری)
  • رسول کریم دے معجزے (مولانا سعید احمد دہلوی کی کتاب معجزات رسول کا سرائیکی ترجمہ)
  • سرائیکی مطالعہ دے سو سال (ڈاکٹر کرسٹوفر شیکل کی کتاب کا سرائیکی ترجمہ)

اردو

[ترمیم]
  • اقبال شناسی اور ایجرٹن کالج میگزین (اقبالیات)
  • اقبال اور اس کی اردو شاعری پر ایک نظر (اقبالیات)
  • آؤ مجھے پہچانو (بچوں کے لیے نظمیں)
  • نیا ستارا (بچوں کے لیے نظمیں)
  • مثنوی یوسف زلیخا (عبد الحکیم اُچوی کی مثنوی کا نثری اردو ترجمہ)
  • اصطلاحات معاشیات (درسی کتاب)
  • نظریات معاشیات (درسی کتاب)
  • انتخاب دیوان خواجہ غلام فرید (منتخب کافیوں کا اردو ترجمہ)
  • سرائیکی اور اس کی نثر (تحقیق)

انگریزی

[ترمیم]
  • Descriptive Economic of Bharat & Pakistan
  • Economic Terms
  • Intermediate Economics (Made Easy)

نمونۂ کلام

[ترمیم]

---نظم ---
علامہ اقبال کی یاد میں

اے کہ ترا وجود ہے باعث فخر ادبیاتاے کہ ترا دماغ ہے مایہ صد تخیلات
اے کہ ترے سخن میں ہے رنگ کلام سامریاے کہ ترے نفس سے ہے جاگی خدا کی کائنات
اے کہ تری نگاہ میں مصر و حجاز و جنیواشام ہے یا ہے قرطبہ روم و فرنگ و سومنات
اے کہ تری خودی ہی ہے راز حیات جاوداںاے کہ تری شہنشہی رشک ملوک شش جہات
اے کہ ترا یہ فلسفہ درس و پیام و ذکر و فکراے کہ یہ درد و سوز و غم مظہر راز قومیات
اے کہ رموز بے خودی تیرے قلم کی رازداراے کہ طریق رند و شیخ تیرے رموز و نظریات
اے کہ ترا مقام ہے چاند ستاروں سے بھی دوراے کہ ترا قیام ہے جائے دل و تصورات
اے کہ غلام غیر کی تو نے نگاہیں پھیر دیںبندہ حُر کے سامنے رکھ دئیے سب مشاہدات
اے کہ ترے لیے اگر کارِ جہاں دراز تھاہم سے کیوں جلد موڑ لی تونے نگاہِ التفات

اعزازات

[ترمیم]
  • کون فرید فقیر پر اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے 1983ء میں خواجہ فرید ایوارڈ دیا گیا۔
  • سرائیکی زبان تے ادب اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے 1988ء میں خواجہ فرید ایوارڈ دیا گیا۔
  • بہاولپور دی تاریخ تے ثقافت پر حکومت پاکستان کے محکمہ اطلاعات و ثقافت جانب سے 1989ء میں جام درک ایوارڈ دیا گیا۔
  • 1998ء میں خواجہ غلام فرید کے صد سالہ جشن کے موقع پر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی جانب سے خواجہ فرید اور ان کے کلام کی تشریح و ترجمہ پر خواجہ فرید میڈل بعد از مرگ دیا گیا۔

وفات

[ترمیم]

دلشاد کلانچوی 16 فروری 1997ء کو بہاولپور، پاکستان میں وفات پاگئے۔ انھیں بستی کلانچ والا میں ان کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔[11]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. شوکت مغل: دلشاد کلانچوی - شخصیت اور فن، ص 15، اکادمی سرائیکی ادب رجسٹرڈ بہاولپور، 2004ء
  2. شوکت مغل: دلشاد کلانچوی - شخصیت اور فن، ص 16، اکادمی سرائیکی ادب رجسٹرڈ بہاولپور، 2004ء
  3. شوکت مغل: دلشاد کلانچوی - شخصیت اور فن، ص 17-18، اکادمی سرائیکی ادب رجسٹرڈ بہاولپور، 2004ء
  4. شوکت مغل: دلشاد کلانچوی - شخصیت اور فن، ص 19-20، اکادمی سرائیکی ادب رجسٹرڈ بہاولپور، 2004ء
  5. شوکت مغل: دلشاد کلانچوی - شخصیت اور فن، ص 21، اکادمی سرائیکی ادب رجسٹرڈ بہاولپور، 2004ء
  6. شوکت مغل: دلشاد کلانچوی - شخصیت اور فن، ص 35، اکادمی سرائیکی ادب رجسٹرڈ بہاولپور، 2004ء
  7. شوکت مغل: دلشاد کلانچوی - شخصیت اور فن، ص 37، اکادمی سرائیکی ادب رجسٹرڈ بہاولپور، 2004ء
  8. شوکت مغل: دلشاد کلانچوی - شخصیت اور فن، ص 38-39، اکادمی سرائیکی ادب رجسٹرڈ بہاولپور، 2004ء
  9. Wb/skr/قرآن شریف دا سرائیکی ترجمہ - Wikimedia Incubator
  10. "Small Steps Higher Ambitions"۔ 30 نومبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مارچ 2018 
  11. شوکت مغل: دلشاد کلانچوی - شخصیت اور فن، ص 29، اکادمی سرائیکی ادب رجسٹرڈ بہاولپور، 2004ء