دولتالہ
دولتالہ (انگریزی: Daultala) ، تحصیل گوجر خان ، ضلع راولپنڈی میں واقع ہے۔ دولتالہ شہر دو یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔ دولتالہ کی مجموعی آبادی 35,800 افراد پر مشتمل ہے۔ [1]
تفصیلات
[ترمیم]دولتالہ کا شمار قدیم ترین قصبات میں ہوتا ہے۔ اس تاریخی قصبہ کو آج بھی مخصوص سیاسی و ثقافتی اہمیت کے پیش نظر غربی گوجر خان کے مرکزی حصہ میں فوقیت و مرکزیت حاصل ہے۔ 1980ء کے بعد دولتالہ نے حیرت انگیز ترقی کی جہاں دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں نے تیزی سے یہاں آباد ہونا شروع کر دیا۔ اس طرح، اس کی آبادی میں چند سالوں میں 50 فیصد اضافہ ہو گیا اور اس کی تجارتی سرگرمیوں میں بھی تیزی آ گئی۔ علاقہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے سرکاری و نیم سرکاری ادارے قائم کیے گئے۔ ان میں تعلیمی ادارے ،واپڈا ،ٹیلی فون کے سب ڈویژن اور دیگر اداروں کے مرکزی دفاتر شامل ہیں۔ یہ علاقہ جو گیس اور معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے ،خوش قسمتی سے اس قصبہ کو گیس جیسی سہولت میسر ہے۔ 1994ء میں ٹاؤن کمیٹی کا درجہ حاصل ہونے کے بعد دولتالہ کی اہمیت میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا اور عوامی حلقوں نے اسے تحصیل کا درجہ دلوانے کے لیے تحصیل بناؤ تحریک کا آغاز کر دیا۔
وجہ تسمیہ
[ترمیم]دولتالہ کی وجہ تسمیہ کے متعلق چند مقامی لوگوں کی طرف سے قصے کہانیاںزبان عام ہیں، مگر ان کے تاریخی شواہد نہیں ملتے۔ عہد شیر شاہ اور عہد اکبر میں معروف قصبات میں شامل تھا۔ اس قصبہ کو زمانے کے بے رحم ہاتھوں کئی دفعہ نیست و نابود ہونا پڑا۔ تاریخ میں اس کے ابتدائی آباد کار کا ذکر نہیں ملتا اور نہ ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصبہ کتنی بار تباہ و برباد ہوا۔تاہم سلطان جلال خان گھکڑ نے اپنے عہدحکومت میں راجا دولوں خان پکھڑال کو بطور جاگیر عطا کر دیا۔دولوں خان نے زمینداراں قوم ،نگیال قوم، گوجر کٹھانہ و کسانہ اور ہندو بیوپاری لا کر یہاں آباد کیے۔ اس کو گرد و نواح کے لوگوں نے راجا دولت خان پکھڑال کے نام سے منسوب کر کے دولوآلہ کہنا شروع کر دیا جو مختلف ادوار میں بگڑ کر دولوآلہ ،دولوں والا اور پھر دولتالہ مشہور ہو گیا۔ اسے سکھوں کے دور میں دولتالہ خالصہ بھی کہا جاتا رہا بعد میں مسلمانوں نے اس کے ساتھ خالصہ مٹا دیا۔
تاریخ
[ترمیم]راجا دولوں خان کے بعد اس کا بیٹا راجا شیر جنگ دولتالہ کا مالک بنا جب اس کو اپنی بیوی مہر النساء کی جانب سے جاگیر ملی تو وہ یہاں سے نقل مکانی کر گیا۔شیر جنگ کے بعد سسر منصب دار راجا شیر علی پکھڑال کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی۔ شیر جنگ کے زمانے میں دولتالہ کو کاغذات میں جنڈالہ بھکڑال لکھا جاتا تھا۔راجا شیر جنگ کے بعد دولتالہ پر مجسم خان گوجر نے قبضہ کر لیاجس نے یہاں کے باسیوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ اس کے مظالم سے خوفزدہ ہو کر لوگوں نے یہاں سے نقل مکانی شروع کر دی۔ مگر بابا شاہ کمال کی بددعا سے بے اولاد رہا۔ اس کے بعد قوم سوہدرہ اور سید قابض ہوئے۔ 1892ء میں سکھ عہد میں سردارن سندانوالیہ کی ہدایات پر داروغہ جنگ نے دولتالہ کو زیل کا درجہ دے کر ایک سکھ ہرنام سنگھ کے حوالے کر دیا۔دولتالہ میں قدیم قوموں میں نگیال ،دھمیال ، لوہدرہ ،سید ،گوجر کٹاریہ، گوجر کسانہ اور قطب شاھی اعوان شامل ہیں جبکہ دیگر قومیں بعد میں یہاں آباد ہوئیں۔جب کہ قیام پاکستان کے بعد ایک بڑی تعداد میں مہاجرین یہاں آ کر آباد ہوئے۔
قلعہ سیداں
[ترمیم]سید خاندان دولتالہ میں قدیم زمانہ سے آباد ہیں۔ مقامی طور پر کہا جاتا ہے کہ زمانہ قدیم میں اندرون شہر قدیمی مسجد کے قریب قلعہ نما جگہ تھی،جہاں سید خاندان آباد تھے اور عام طور پر سیداں کا قلعہ کہا جاتا تھا۔ گو کہ آج بھی یہ جگہ شہر میں سب سے اونچی جگہ واقعہ ہے اور اس کے آثار بھی ہیں مگر تاریخ میں اس قلعہ کے متعلق ثبوت نہیں ملتا۔
تاریخی اور جغرافیائی اہمیت
[ترمیم]دولتالہ اپنے تاریخی اور جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے تحصیل گوجرخان کا ایک نہات اہم قصبہ ہے۔ اس کی مرکزی حیثیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ شہر کے چاروں اطراف چھوٹی بڑی کل ملا کر 11سڑکیں نکلتی ہیں۔ ان میں سے صرف ایک سڑک ایسی ہے جو پچھلی صدی کے وسط میں تعمیر ہوئی۔ باقی سب سڑکیں اتنی ہی قدیم ہیں جتنا یہ قصبہ۔ایک طویل مدت سے یہ شہر گرد و نواح کے لوگوں کی ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔ یہاں ابتدا ہی سے ریلوے اسٹیشن (1993ء میں ریل کے اس روٹ کو بند کردیا گیا)، تعلیمی ادارے، پوسٹ آفس، ہسپتال، شفاخانہ حوانات اور بازار میں ضروریات عام کی اشیاء کے علاوہ زرعی اجناس بھی یہاں دستیاب تھے۔ شہر کا ایک بازار محض تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے منڈی بازار مشہور ہوا۔
تقسیم ملک 1947کے حالات
[ترمیم]دولتالہ شہر کئی بار اجڑا اور بسا۔ 1947ء میں یہ شہر تباہ ہونے سے بال بال بچ گیا تقسیم کے وقت مسلمانوں پر بے انتہا ظلم ہوئے جس سے مسلمانوں میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی۔ اس وقت اندرون شہر میں ہندو اور سکھ آبادی کی اکثریت تھی جبکہ بیرون شہر میں مقامی آبادی تھی جس سے شہر میں حالات بہت حد تک کشیدہ ہو گئے تھے مگر بزرگ شہریوں کی سوجھ بوجھ اور انگریز فوج کی بروقت آمد کی وجہ یہ خطرہ ٹل گیا۔ دولتالہ شہر کے مشرقی سمت پرائمری اسکول کے پہلو میں ایک بہت بڑا تالاب تھا، جس میں سارا سال پانی جمع رہتا تھا۔ اس کے کناروں پر (BANYAN)کے انتہائی قدیم بڑے بڑے درخت تھے اس تالاب سمیت دولتالہ میں کل پانچ تالاب اور تین بڑے پانی کے کنویں تھے م[2]گر رفتہ رفتہ شہر کے چاروں اطراف میں پھیلے ہوئے تالاب اور کنوؤں کو ختم کردیا گیا لیکن ان درختوں کو باقی رہنے دیا گیا۔ اسی طرح شہر کی مغرب میں آبادی سے ہٹ کر کئی ایکڑ پر پھیلا ہوا پھلدار درختوں کا ایک باغ تھا جس کی باقیات دیکھی جاسکتی ہیں ۔
مشہور مقامات
[ترمیم]سکھوں کے زمانہ میں دولتالہ شہر میں واقع بڑا کنوں اندرون شہر میں پانی کی تقریباًتمام ضروریات پوری کرتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ضرورت اور استعمال واہمیت میں کمی آگئی۔ تاہم آج بھی وہ جگہ اس کنواں کے نام سے ’چوک بڑا کنواں ‘کے نام سے مشہور ہے ۔ اس کے علاوہ سکھوں کا قدیم محلہ جس میں سردار جیون سنگھ گوجرال اور سردار اتم سنگھ گوجرال کی حویلیاں تعمیر کی گئی تھی آج بھی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے ۔
مشاہیر
[ترمیم]سوار محمد حسین شہید (نشان حیدر) کا تعلق دولتالہ کے نواحی گاؤں سے ہے۔ آپ کا مزار ڈھوک پیر بخش میں واقع ہے ۔
قدرتی گیس
[ترمیم]خطہ پوٹھوہار کا یہ علاقہ معدنیات گیس سے مالامال ہے۔ دولتالہ اور قریب وجوار کے دیہات میں تین مقامات آہدی،ترکوال اور بھنگالی سے گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ انگریزی ویکیپیڈیا کے مشارکین۔ "Daultala"
- ↑ .Being a citizen of this town noted all this information
|
|