سورہ المؤمنون
دور نزول | مکی |
---|---|
اعداد و شمار | |
عددِ سورت | 23 |
عددِ پارہ | 18 |
تعداد آیات | 118 |
الفاظ | 1,051 |
حروف | 4,354 |
قرآن مجید کی 23 ویں سورت جو 18 ویں پارے کے آغاز سے شروع ہوتی ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے مکی دور میں نازل ہوئی۔ اس میں 118 آیات اور 6 رکوع ہیں۔
نام
پہلی ہی "آیت قد افلع المؤمنون" سے ماخوذ ہے۔
زمانۂ نزول
اندازِ بیاں اور مضامین، دونوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت کا زمانۂ نزول مکے کا دور متوسط ہے۔ پس منظر میں صاف محسوس ہوتا ہے کہ اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور کفار کے درمیان سخت کشمکش برپا ہے، لیکن ابھی کفار کے ظلم و ستم نے پورا زور نہیں پکڑا ہے۔ آیت 75 اور 76 سے صاف طور پر یہ شہادت ملتی ہے کہ یہ مکے کے اس قحط کی شدت کے زمانے میں نازل ہوئی ہے جو معتبر روایات کی رو سے اسی دورِ متوسط میں برپا ہوا تھا۔ عروہ بن زبیر کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت عمر ایمان لا چکے تھے۔ وہ عبد الرحمٰن بن عبد القادری کے حوالے سے حضرت عمر کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ یہ سورت ان کے سامنے نازل ہوئی ہے۔ وہ خود نزولِ وحی کی کیفیت کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر طاری ہوتے دیکھ رہے تھے اور جب حضور اس سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ مجھ پر اس وقت دس ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں کہ اگر کوئی ان کے معیار پر پورا اتر جائے تو یقیناً جنت میں جائے گا، پھر آپ نے اس سورت کی ابتدائی آیات سنائیں۔[1]
موضوع و مباحث
اتباعِ رسول کی دعوت اس سورت کا مرکزی مضمون ہے اور پوری تقریر اسی مرکز کے گرد گھومتی ہے۔
آغازِ کلام اس طرح ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اس پیغمبر کی بات مان لی ہے، ان کے اندر یہ اور یہ اوصاف پیدا ہو رہے ہیں اور یقیناً ایسے ہی لوگ دنیا و آخرت میں فلاح کے مستحق ہیں۔
اس کے بعد انسان کی پیدائش، آسمان و زمین کی پیدائش، نباتات و حیوانات کی پیدائش اور دوسرے آثارِ کائنات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، جس سے مقصود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ توحید اور معاد کی جن حقیقتوں کو ماننے کے لیے پیغمبر تم سے کہتا ہے ان کے بر حق ہونے پر تمھارا اپنا وجود اور یہ پورا نظامِ عالم گواہ ہے۔
پھر انبیا علیہم السلام اور ان کی امتوں کے قصے شروع کیے گئے ہیں، جو بظاہر تو قصے نظر آتے ہیں لیکن دراصل اس پیرائے میں چند باتیں سامعین کو سمجھائی گئی ہیں :
اول یہ کہ آج تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت پر جو شبہات و اعتراضات وارد کر رہے ہیں وہ کچھ نئے نہیں ہیں۔ پہلے بھی جو انبیا دنیا میں آئے تھے جن کو تم خود فرستادۂ الٰہی مانتے ہو، ان سب پر ان کے زمانے کے جاہلوں نے یہی اعتراضات کیے تھے۔ اب دیکھ لو کہ تاریخ کا سبق کیا بتا رہا ہے۔ اعتراضات کرنے والے حق پر ہیں یا انبیا؟
دوم یہ کہ توحید و آخرت کے متعلق جو تعلیم محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دے رہے ہیں یہی تعلیم ہر زمانے کے انبیا نے دی ہے۔ اُس سے مختلف کوئی نرالی چیز آج نہیں پیش کی جا رہی ہے جو کبھی دنیا نے نہ سنی ہو۔
سوم یہ کہ جن قوموں نے انبیا کی بات سن کر نہ دی اور ان کی مخالفت پر اصرار کیا وہ آخر کار تباہ ہو کر رہیں۔
چہارم یہ کہ خدا کی طرف سے ہر زمانے میں ایک ہی دین آتا رہا ہے اور تمام انبیا ایک ہی امت کے لوگ تھے۔ اُس دین واحد کے سوا جو محتلف مذاہب تم لوگ دنیا میں دیکھ رہے ہو یہ سب لوگوں کے طبع زاد ہیں <ان میں سے کوئی بھ من جانب اللہ نہیں ہے۔
ان قصوں کے بعد لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ دنیوی خوش حالی، مال و دولت، آل و اولاد، حشم و خدم، قوت و اقتدار وہ چیزیں نہیں ہیں جو کسی شخص یا گروہ کے راہِ راست پر ہونے کی یقینی علامت ہوں اور اس بات کی دلیل قرار دی جائیں کہ خدا اس پر مہربان ہے اور اس کا رویہ خدا کو محبوب ہے۔ اسی طرح کسی کا غریب اورخستہ حال ہونا بھی اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ خدا اس سے اور اس کے رویے سے ناراض ہے۔ اصل چیز جس پر خدا کے ہاں محبوب یا مغضوب ہونے کا مدار ہے وہ آدمی کا ایمان اور اس کی خدا ترسی و راستبازی ہے۔ یہ باتیں اس لیے ارشاد ہوئی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کے مقابلے میں اس وقت جو مزاحمت ہو رہی تھی اس کے علم بردار سب کے سب مکے کے شیوخ اور بڑے بڑے سردار تھے۔ وہ اپنی جگہ خود بھی یہ گھمنڈ رکھتے تھے اور ان کے زیر اثر لوگ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ نعمتوں کی بارش جن لوگوں پر ہو رہی ہے اور جو بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں ان پر ضرور خدا اور دیوتاؤں کا کرم ہے۔ رہی ے یہ ٹوٹے مارے جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ہیں اِن کی اپنی حالت خود یہ بتا رہی ہے کہ خدا ان کے ساتھ نہيں ہے۔
اس کے بعد اہل مکہ کو مختلف پہلوؤں سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت پر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پھر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ قحط جو تم پر نازل ہوا ہے، یہ ایک تنبیہ ہے، بہتر ہے کہ اس کو دیکھ کر سنبھلو اور راہِ راست پر آجاؤ۔ ورنہ اس کے بعد سخت تر سزا آئے گی جس پر بلبلا اٹھو گے۔
پھر ان کو از سرنو ان آثار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو کائنات میں اور خود ان کے اپنے وجود میں موجود ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ آنکھیں کھول کر دیکھو، جس توحید اور جس حیات بعد الموت کی حقیقت سے یہ پیغمبر تم کو آگاہ کر رہا ہے، کیا ہر طرف اس کی شہادت دینے والے آثار پھیلے ہوئے نہیں ہیں؟ کیا تمھاری عقل اور فطرت اس کی صحت و صداقت پر گواہی نہیں دیتی؟
پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہدایت کی گئی ہے کہ خواہ یہ لوگ تمھارے مقابلے پر کیسا ہی برا رویہ اختیار کریں، تم بھلے طریقوں ہی سے مدافعت کرنا۔ شیطان کبھی تم کو جوش میں لا کر برائی کا جواب برائی سے دینے پر آمادہ نہ کر پائے۔
خاتمۂ کلام پر مخالفین حق کو آخرت کی باز پرس سے ڈرایا گیا ہے اور انھیں متنبہ کیا گیا ہے کہ جو کچھ تم دعوتِ حق اور اس کے پیروؤں کے ساتھ کر رہے ہو اس کا سخت حساب تم سے لیا جائے گا۔
حوالہ جات
- ↑ ترمذی، نسائی، حاکم