مکلی قبرستان
شہزادہ سلطان ابراہیم بن مرزا محمد عیسی ترخان کی قبر, مکلی قبرستان | |
پاکستان میں مکلی قبرستان | |
تفصیلات | |
---|---|
مقام | ٹھٹہ |
ملک | پاکستان |
متناقسات | 24°45′13″N 67°53′59″E / 24.753589°N 67.899783°E |
قسم | صوفی |
تعداد قبور | 125,000 |
سرکاری نام: مکلی میں تاریخی یادگاریں, ٹھٹھہ | |
قسم: | ثقافتی |
معیار اصول: | iii |
نامزد: | 1981 (پانچواں) |
رقم حوالہ: | 143 |
ریاستی: | پاکستان |
علاقہ: | ایشیا بحر الکاہل |
مکلی قبرستان مکلی ٹھٹہ کے قریب واقع ہے۔ یہ قبرستان، جس میں لاکھوں قبور ہیں تقریباً آٹھ کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ یہاں کئی بادشاہ، ملکہ، علما، فضلا، فقہا، محدثین، شعرا، مغل نواب، فلسفی اور جرنیل سپرد خاک ہیں۔ یہاں کی قبروں کی خاص بات اُن کے دیدہ زیب خدوخال اور نقش و نگار ہیں جو نہ صرف اہلِ قبر کے زمانے کی نشان دہی کرتے ہیں بلکہ اُس وقت کی تہذیب، ثقافت اور ہنرمندی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہاں موجود قبریں تاریخی اعتبار سے دو ادوار میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ پہلا سما بادشاہوں کا دور جو (1520ء - 1352ء) تک رہا اور دوسرا ترخائن بادشاہوں کا دور جو (1592ء - 1556ء) تک رہا۔ ان عمارتوں کے ڈھانچے نہایت مضبوط، طرزِ تعمیر نہایت عمدہ اور تعمیری مواد بہت ہی اعلیٰ معیار کا ہے۔ ان قبروں پر کی گئی نقاشی اور کشیدہ کاری کا کام اپنی مثال آپ ہے۔ یہ قبرستان تاریخ کا وہ ورثہ ہے جو قوموں کے مٹنے کے بعد بھی اُن کی عظمت و ہنر کا پتہ دیتا ہے۔ اس کو دیکھنے کے لیے ہر سال ہزاروں لوگ اس قبرستان میں آتے ہیں۔ کراچی سے ٹھٹہ جائیں تو شہر کی حدود شروع ہونے سے قبل ہی مکلی کا تاریخی قبرستان آتا ہے جہاں ایک روایت کے مطابق ساڑھے 4 لاکھ قبریں ہیں۔ وسیع سلسلہ کوہ کے 33 مربع میل رقبے میں 33 بادشاہ، 17 گورنر، سوا لاکھ اولیائے کرام اور لاتعداد ادبا، شعرا، دانشور، اہلِ علم اور عام آدمی سپرد خاک ہیں۔ یہ ایشیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے جو یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل ہے۔
تاریخ
صوفی بزرگ، شاعر اور عالم شیخ جمالی نے مکلی میں خانقاہ یا صوفی اجتماع کی جگہ قائم کی اور وہیں دفن ہوئے۔ [1]14ویں صدی کے سمّا حکمران جام تماچی نے سنت کی تعظیم کی اور مکلی کو جنازہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کی روایت شروع کرتے ہوئے سنت کے قریب تدفین کی خواہش ظاہر کی۔ یہ مقام سما خاندان کے دور حکومت میں ایک بڑے جنازے کی جگہ کے طور پر مقبول ہوا، جنھوں نے ٹھٹھہ کے قریب اپنا دار الحکومت بنایا تھا۔ [2] اس مقام پر تعمیراتی لحاظ سے سب سے اہم مقبرے مغل دور کے زمانے سے 1570 اور 1640 عیسوی کے درمیان ہیں۔ [3]
تعمیراتی ارتقا
سب سے بڑی یادگاروں کے فن تعمیرات میں مسلم، ہندو، فارسی، مغل اور گجراتی اثرات کو ملایا گیا ہے، [4] زیریں سندھ کے انداز میں جو چوکھنڈی طرز کے نام سے مشہور ہوا، جسے کراچی کے قریب چوکنڈی مقبروں کا نام دیا گیا ہے۔ چوکھنڈی کا انداز ریت کے پتھر کے سلیبوں کو شامل کرنے کے لیے آیا تھا جنہیں پتھر کے معماروں نے پیچیدہ اور وسیع ڈیزائن میں احتیاط سے تراشے تھے۔ [5] قدیم ترین مقبروں میں پتھر کے تین سے چھ سلیب ایک دوسرے کے اوپر ایک چھوٹے اہرام کی شکل میں رکھے ہوئے تھے۔ جنازے کے فن تعمیر کو تیار کرتے ہوئے پھر چھوٹے چبوترے کو شامل کیا۔[6]
تصاویر
حوالہ جات
- ↑ Urooj Qureshi (8 August 2014)۔ "In Pakistan, imposing tombs that few have seen"۔ BBC Travel۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولائی 2017
- ↑ Urooj Qureshi (8 August 2014)۔ "In Pakistan, imposing tombs that few have seen"۔ BBC Travel۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولائی 2017
- ↑ WJ Furnival (1904)۔ Leadless Decorative Tiles, Faience, and Mosaic: Comprising Notes and Excerpts on the History, Materials, Manufacture & Use of Ornamental Flooring Tiles, Ceramic Mosaic, and Decorative Tiles and Faience, with Complete Series of Recipes for Tile-bodies, and for Leadless Glazes and Art-tile Enamels, Volume 1۔ W. J. Furnival۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولائی 2017
- ↑ "Historical Monuments at Makli, Thatta"۔ UNESCO۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولائی 2017
- ↑ Iftikhar Malik (2006)۔ Culture and Customs of Pakistan۔ Greenwood Publishing Group۔ ISBN 978-0313331268۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولائی 2017
- ↑ Iftikhar Malik (2006)۔ Culture and Customs of Pakistan۔ Greenwood Publishing Group۔ ISBN 978-0313331268۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولائی 2017