ٹلہ جوگیاں
پہلی صدی ق م کا ٹیلہ جوگیاں ہندو مندر | |
اندرون پنجاب، پاکستان | |
مقام | سلسلہ کوہ نمک پنجاب پاکستان |
---|---|
متناسقات | 33°23′59″N 73°17′59″E / 33.3997°N 73.2997°E |
قسم | خانقاہ |
تاریخ | |
قیام | نویں صدی عام زمانہ |
متروک | 1947ء |
ادوار | برہمن شاہی |
ثقافتیں | پنجابی ہندو |
ہم یقینی طور پر نہیں جانتے کہ ٹیلہ کی خانقاہ کب وجود میں آئی لیکن ہمیں کے پہلوٹی کے بیٹے پورن کی داستان میں اس سیالکوٹ کے راجا سلواہن سوتیلی خانقاہ کا ذکر پہلی مرتبہ ملتا ہے۔ داستان کے مطابق پورن کو اس کی ماں کے لگائے ہوئے بد کاری کے الزام کی وجہ سے ہاتھ پاؤں کاٹ کر شہر سے باہر ایک کنویں میں ڈال دیا گیا۔ وہ وہاں زندگی اور موت کی کشمکش میں پڑا تھا کہ ایک روز ادھر سے گرو گورکناتھ کا گذر ہوا۔ گرو کے ایک چیلے نے کنویں میں پورن کو دیکھا اور گرو کے ہدایت پر اسے باہر نکالا۔ پورن کے گورو کو اپنی کہانی سنائی جس پر گرو بہت رنجیدہ ہوئے۔ بس گرو کا پورن کے مسخ شدہ جسم پر ہاتھ پھیرنا تھا کہ وہ معجزاتی طور پر ٹھیک ہو گیا۔
پنجابی کی معروف رومانی داستان ہیر رانجھا میں پنجابی شاعر وارث شاہ نے بھی ٹیلہ جوگیاں کا ذکر کیا ہے ـ
وارث شاہ کے مطابق گورو گورکہناتھ کے چیلے بالناتھ جوگی نے رانجھے کو جوگی بنایا تھاـ
ٹیلہ جوگیاں سلسلہ کوہ نمک پاکستان کا ایک اہم پہاڑ ہے۔ اس کی بلندی 3200 فٹ ہے۔ اس کی چوٹی پر ہندووں کے مندراورپانی جمع کرنے کے تالاب ہیں۔ سکندر اعظم، مغل بادشاہ جہانگیر، گورونانک ، رانجھا ، حضرت نورعلی رحمۃ اللہ علیہ المعروف ملاں پنجاب اور بہادر شاہ یہاں آئے۔ یہاں سے جہلم 30 کلومیٹر اور قلعہ روہتاس 5 کلومیٹر دور ہے۔ یہ ایک پرفضا مقام ہے۔
پہاڑ دکھائی دیتا ہے۔ اور اگر آپ شیر شاہ سوری کے مشہور قلعہ رہتاس میں ہوں تو یہی پہاڑ عین جنوب کو نظر آئے گا۔ یہ ہے ٹیلہ جوگیاں کا پہاڑ جو کے ایک ہزار میٹر یا تین سو فٹ اونچا ہے۔ اس کی چوٹی پر خستہ کھنڈر ہیں جو ایک قدیمی خانقاہ کی باقیات ہیں۔ یہاں آپ دو راستوں سے پہنچ سکتے ہیں۔ اول تو جیپ کا رستہ ہے جو قلعہ رہتاس سے ہوتا ہوا سیدھا یہاں پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی اور رستے ہیں جو پیدل سفر کے ہیں اور جو پہاڑ کے دامن میں مختلف آبادیوں سے نکلتے ہیں۔ اور یہی وہ رستے ہیں جن کے ذریعے کئی صدیوں تک یاتری ٹلہ جوگیاں کے بیساکھی کے میلے پر آتے رہے ہیں۔
اکبر نامہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ نے دو مختلف مواقع پر ٹیلہ جوگیاں کی سیر بھی کی۔ انہی شاہی دوروں کا نتیجہ قد آور چیڑ کے پیڑوں کی چھاؤں میں گھرا ہوا مغل طرز کا تالاب ہے۔ یقیناً وہ خشک سالی کا دور ہوگا اور جوگیوں نے بادشاہ سے پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے تالاب کی درخواست کی ہوگی۔ چند سال پہلے تک تالاب کے بالکل ساتھ ہی کوئی بارہ پندرہ سمادھیاں تھیں لیکن کچھ لالچی لوگوں نے خزانے کے لالچ میں ان سب کو تباہ کر ڈالا۔
تالاب سے شمال کی جانب نظریں کریں تو بوسیدہ اور خستہ حال عمارتوں کا ایک جھمگھٹا ہے۔ یہاں پیپل اور جنگلی زیتون کے گھنے سائے میں مندر اور سمادھیاں ہیں۔ یہاں بھی انسانی لالچ کے ہاتھوں ہونے والی تباہ کاری واضح ہے۔ اگر آپ آثار قدیمہ کے ماہر والی آنکھ رکھتے ہیں تو آپ بھانپ لیں گے کہ اوپر کی سطح والی عمارتوں کے نیچے ایک تہ مزید پرانی عمارتوں کی ہے۔ کہیں ملبے تلے محراب، کہیں بوسیدہ دیوار اور کہیں سیڑھیاں جو کسی گم گشتہ عمارت کے اندر اترتی تھیں۔ اس سب پر طاری ایک گمبھیر خاموشی جس کو صرف ہوا کی سرگوشی اور پرندوں کا چہچہانا توڑتا ہے۔
مغرب کی جانب ٹیلہ کی سب سے اونچی چوٹی پر نیلے آسمان تلے ایک عمارت آپ کی توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے کیونکہ بناوٹ کے لحاظ سے وہ قائد اعظم کے مزار سے مشابہت رکھتی ہے۔ گنبد والی یہ عمارت تقریباً آٹھ فٹ اونچی ہے اور طرز تعمیر سے واضح طور پر سکھ دور کی ہے۔ اپنے زمانے میں عین اسی مقام پر گورو نانک نے چلہ کشی کی تھی۔ اور پھر ساڑھے تین سو سال بعد راجا رنجیت سنگھ کے دور میں جب گورو نانک کے ماننے والوں نے پنجاب کی حکومت سنبھالی تو اس یاد کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کرنے کی خاطر یہ گنبد کھڑا کیا